سندِ حدیث اور اس کی ضرورت و اہمیت

ندیم احمد انصاری

سند کہتے ہیں حدیث کو سلسلہ بہ سلسلہ حضور ﷺ تک پہنچانے کو، یعنی جس استادِ حدیث سے اجازتِ حدیث حاصل ہو، اس سے ہوتے ہوئے اپنے سلسلے کو حضورﷺ تک بیان کیا جائے ۔اس کا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی جعلی شخص حدیث اور دین کے معاملے میں اپنی من مانی نہیں کر پاتا، گویا یہ دین و شریعت کی حفاظت انتظام بھی ہے اور ایک طریقۂ تعلیم بھی۔ہندستان کی سب سے عظیم دینی درس گاہ سے وابستہ علما کی سندکے تیں حصّے ہیں؛ پہلا اپنے استاد سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تک، دوسرا شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے کسی بھی حدیث کی کتاب کے مصنف تک، تیسرا صاحبِ کتاب سے حضور نبی کریم ﷺتک۔ جہاں تک آخری اور تیسرے حصّے کا تعلق ہے تو صاحبِ کتاب نے حضورﷺ تک اپنی سند کا ذکر عام طور سے اپنی کتاب میں کر دیا ہے ، دوسرا حصہ جو حضرت شاہ ولی اللہ وہلویؒ سے حدیث کی کتابوں اوران کے مصنفین تک ہے ، اس کا حال انھوں نے اپنے رسالے الارشاد الی مھمات الاسناد میں، شاہ عبد العزیز نے رسالہ العجالۃ النافعۃ میںاور شاہ اسحاق دہلوی رحہم اللہ نے الیانع الجنی میں بیان کیا ہے ۔ سند کا تیسرا حصّہ ہمارے استادِ محترم، محدثِ دوراںحضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی دامت برکاتم العالیہ کے واسطے سے اس طرح ہے :محدثِ کبیر حضرت مولانا فخر الدین احمد مرادآبادی، محدثِ جلیل شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی،محدثِ کبیر شاہ عبد الغنی مجددی، محدثِ جلیل شاہ محمد اسحاق دہلوی، محدثِ عظیم شاہ عبد العزیز دہلوی، محدثِ اکبر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ تعالی۔واضح رہے سندِ حدیث کسی استادِ حدیث سے باقاعدہ کسی مدرسے داخلہ لے کر بھی حاصل کی جاتی ہے اور بعض دفع قرآن و حدیث کا علم رکھنے والوں کو اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے خود محدث یہ اعزاز اسے بخش دیتا ہے اور کبھی اپنی سند کو عالی بنانے اور اس سلسلے سے فیض یاب ہونے کے کے لیے مستقل سفر بھی کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ قاموس الفقہ میں مذکور ہے کہ سند کا بیان کرنا اور زیادہ معتبر سند سے کسی سے حدیث کا حاصل کرنا خود حدیث اور صحابہ کے تعامل سے ثابت ہے ، عطاء بن رباح سے مروی ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے محض ایک حدیث کی تجدید کے لیے ، جو ان کے علاوہ حضورﷺ سے حضرت عقبہ بن عامر نے سنی تھی، اپنی کبر سنی کے باوجود مصر کا سفر کیا اور اپنے حفظ کی تجدید کی۔

حضرت بن سیرین کا ارشاد ہے :لَمْ یَکُونُوا یَسْأَلُونَ عَنْ الْاِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَۃُ قَالُوا سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ فَیُنْظَرُ اِلَی أَھْلِ السُّنَّۃِ فَیُؤْخَذُ حَدِیثُھُمْ وَیُنْظَرُ اِلَی أَھْلِ الْبِدَعِ فَلَا یُؤْخَذُ حَدِیثُھُمْ۔ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے ، لیکن جب دین میں بدعات اور فتنے داخل ہوگئے تو لوگوں نے کہا کہ اپنی اپنی سند بیان کرو، پس جس حدیث کی سند میں اہلسنت راوی دیکھتے تو ان کی حدیث لے لیتے اور اگر سند میں اہلِ بدعت راوی دیکھتے تو اس کو چھوڑ دیتے ۔(مقدمۃ مسلم، مکتبۃ الرشد،ریاض)

اس لیے جب تک حدیث کی کتابیں صحاحِ ستہ وغیرہ وجود میں نہیں آئی تھیں اس وقت تک قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص کوئی حدیث سناتا تو اس پر یہ لازم اور ضروری تھا کہ وہ تنہا حدیث نہ سنائے ، بلکہ اس حدیث کی پوری سند بھی بیان کرے کہ یہ حدیث مجھے فلاں نے سنائی، اور فلاں کو فلاں نے سنائی، اور فلاں کو فلاں نے سنائی۔ پہلے پوری سند بیان کرتا، پھر حدیث سناتا، تب اس کی بیان کردہ حدیث قابلِ قبول ہوتی تھی اور سند کے بغیر کوئی شخص حدیث سناتا تو کوئی اس کی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔اب کتانوں کے تواتر کے درجے تک پہنچ جانے کے بعد سند کی اتنی زیادہ تحقیق کی اور اس کو محفوظ کرنے کی ضرورت نہ رہی، کیوں کہ اب تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ کتاب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ ہے ، لہٰذا اب ہر حدیث کے ساتھ پوری سند بیان کرنا ضروری نہیں، بلکہ اب حدیث بیان کرنے کے بعد رواہ البخاری کہہ دینا کافی ہو جاتا ہے ، لیکن اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے یہ طریقہ باقی رکھا ہے کہ اگرچہ ہر حدیث کے بیان کرتے وقت پوری لمبی سند بیان نہ کی جائے ، لیکن روایت اور اجازت کے طور پر اس پوری سند کو محفوظ ضرور رکھا جائے ، کیوں کہ اگرہر حدیث سے پہلے یہ طویل سند بیان کی جائے گی تو لوگوں کے لیے دشواری ہو جائے گی۔(اصلاحی خطبات)

علمِ حدیث کی دائمی حفاظت کے لیے زعماے امت نے جو فنون ایجاد کیے ان کی تعداد کم وبیش سو تک پہنچتی ہے ،علامہ سیوطیؒ متوفی۱۱۹ھ نے ’تدریب الراوی‘میں ،علامہ حازمی ؒمتوفی ۴۸۵ھ نے ’کتاب العجالۃ‘ میں اور علامہ ابن الصلاح ؒمتوفی ۳۴۶ھ نے ’ مقدمہ‘میں اس بارے میں نہایت عمدہ بحث وتحقیق کی ہے ۔ابن الملقن ؒمتوفی۴۰۸ھ فرماتے ہیں کہ ’علومِ حدیث‘کی انواع دو سو سے زائد ہیں ۔(تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، مقدمۃ المؤلف، قدیمی کتب خانہ کراچی)حفاظتِ حدیث کے لیے بنائے گئے مختلف علوم وفنون میں ’علم الاسناد‘ کی دینی حیثیت نہایت ممتاز ہے ، اس فن میں مؤلفینِ صحاح میں سے جلیل القدر محدث امام مسلم متوفی ۱۶۲ھ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے مقدمے میں مکمل اور مفصل بحث کی ہے ، انھوں نے سند کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے امام عبداﷲ بن مبارکؒ متوفی ۱۸۱ھ کا یہ زریں قول بھی نقل فرمایا ہے :الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء۔ یعنی اسناد دین کا اہم ترین حصہ ہیں، اگر اسناد نہ ہو تو ہر شخص جو جی میں آئے کہنے لگے ۔اسی مقدمے میں عبداﷲ بن مبارک کا یہ ارشاد بھی منقول ہے :بیننا وبین القوم القوائم یعنی الاسناد۔ہمارے اور ناقلینِ حدیث کے درمیان (حدیث کے) پائے ہیں، اور وہ اسناد ہیں۔(مقدمۃ مسلم، باب بیان الاسناد من الدین،قدیمی کتب خانہ کراچی،۵۷۳۱ھ)

ہشام بن عروۃ فرماتے ہیں کہ جب تجھ سے کوئی شخص حدیث بیان کرے اس سے دریافت کرو کہ تجھ سے کس نے روایت کی؟اور امام اوزاعی متوفی ۷۵۱ھ فرماتے ہیں کہ علم اٹھ جانے کا مطلب یہی ہے کہ اسناد اٹھ جائے ۔(الاسناد من الدین لعبد الفتاح ابی غدۃ،ذکرجملۃ من اقوال السلف فی اھمیۃ الاسناد، ص:20،المکتبۃ الغفوریۃ العاصمیۃ، کراچی)سفیان ثوری (متوفی ۱۶۱ھ) فرماتے ہیں کہ اسناد مومن کا اسلحہ ہے ۔(فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث للسخاوی،العالی والنازل،دار الامام الطبری، ۲۱۴۱ھ)اگر اس کے پاس یہ اسلحہ نہ ہو تو وہ کس چیز سے جنگ لڑے گا ۔نیز محدثین حضرات کا رزین مقولہ ہے : ان السند للخبر کالنسب للمرأ، یعنی حدیث میں سند کی حیثیت آدمی کے نسب کی سی ہے ، جس طرح نسب کے ذریعے سے انسان کی اصل ونسل اور اس کے نسب کی نجابت ورزالت کا حال معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح حدیث کی صحت وعدم صحت کا حال سند کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہے ،بہ ہر حال سند کی دینی حیثیت نہایت اونچی ہے ۔(مستفاد از فتاویٰ بینات)

نیز سند واسطوں کے اعتبار سے دو طرح کی ہوتی ہے ؛عالی اور نازل، پھر اس میں بھی تقسیم ہے ، جیسے کہ نخبۃ الفکر میں ہے :فَانْ قَلَّ عَدَدُہُ: فَامَّا أَنْ یَنْتَھِیَ اِلی النَّبِیّ ﷺ، أَوْ الی اِمَامٍ ذِی صِفَۃٍ عَلِیٍَّ کَشُعْبَۃَ، فَالْأَوَّلُ: العُلُوُّ الْمُطْلَقُ، والثَّانِی: النِّسْبِیُ۔ اگرکسی سندکے رجال کی تعداد (دوسری سند کے عددِ رجال کی بہ نسبت) کم ہو تو یہ (قلیل العدد سند) یاتو نبی کریمﷺ تک پہنچتی ہوگی، یا کسی شانِ عالی کے حامل، امامِ حدیث تک پہنچتی ہوگی ،جیسے حضرت شعبہؒ۔ تو پہلی صورت ’علوّمطلق‘(سے موسوم)ہے اور دوسری صورت ’علوّنِسبی‘(کہلاتی)ہے ۔اور شرح نخبۃ الفکر میں مرقوم ہے کہ اب جب کوئی سند حضورﷺ تک پہنچی تو اس سند کے رایوں کی تعداد دیکھی جائے گی، راویوں کی کمی بیشی سے سند کی ایک قسم بن جاتی ہے ، ایک سند عالی ہوتی ہے ، ایک نازل ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر ابن ماجہ کے پاس ایک حدیث ہے ، اس کی تین سندیں ہیں؛ ایک سند میں آٹھ راوی، دوسری سند میں نو راوی اور تیسری سند میں بھی آٹھ راوی ہیں۔ آٹھ راویوں والی سند عالی ہے ، نو راویوں والی سند نازل ہے ، کیوں کہ راوی زیادہ ہو گئے اور یہ سنداُوپر والے درجے سے اُتر گئی اور دونوں آٹھ راویوں والی سندیں مساوی ہیں اور اگر ساری سندیں آٹھ راویوں والی ہیں تو پھر کوئی سند نازل اور عالی نہیں بنے گی، بلکہ یہ سندیں مساوی ہوں گی۔ اس ’علو‘ اور ’نزول‘ کو ’علومطلق‘اور ’نزول مطلق‘کہتے ہیں۔(وسیلۃ الظفر شرح اردو نخبۃ الفکر)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سند کا ایک باطنی پہلو بھی ہے ، وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے جن مقدس بندوں کو اپنے نبی کریمﷺکے ارشادات کے تحفظ کے لیے منتخب فرمایا، ان کی سعادت کا کیا مقام ہوگا؟
ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ تعالیٰ نے یہ خاص سعادت صرف ان حضرات کو عطا فرمائی جن کو اس کام کے لیے منتخب فرمایا، وہ جس سے چاہیں جو کام لے لیں۔ جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت عطا فرمائی، ان میں سے ایک ایک فرد ہمارے لیے مینارۂ نور ہے ، ہمارے سر کا تاج ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات میں کیا انوار و برکات ودیعت فرمائے ہیں جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ خدمت لی، لہٰذا سلسلۂ سند میں آنے والے راویوں کے نام محض نام نہیں ہیں، بلکہ یہ نور کے مینارے ہیں، جن کا سلسلہ جاکر رسول اللہﷺ سے جڑتا ہے ۔(اصلاحی خطبات)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here