سونا چاندی اور روپیہ کا نصاب

سوناچاندی اورروپیہ کانصاب
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
سونا اورچاندی تو ایسی چیزیںہیںکہ ان میںتجارت کی نیت ہویانہ ہو؛ ویسے ہی آپ نے جمع کرکے رکھا ہو،یاعورتوں نے زیور کے طورپر خریدا ہو، تب بھی اس میں زکوٰۃ فرض ہوتی ہےاگر اس کے نصاب کی مقدار کاہو،اورروپیہ پیسہ اگراتنا ہوجو سونے اورچاندی کے نصاب کی کم سے کم مقدار کو پہنچ جائے۔ آج کل سونے کے مقابلہ میں چاندی سستی ہے، اس لئے چاندی کا جو نصاب چھ سوبارہ اعشاریہ پینتیس( ۳۵/ ۶۱۲ )گرام ہے،جس کی قیمت پچپن (۵۵) روپیہ گرام کےحساب سے چونتیس ( ۳۴)ہزارکےقریب میںنصاب پورا ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر کسی کے پاس کم سے کم چونتیس( ۳۴)ہزار روپیہ ہوں اوراس پرکسی طرح کا قرض بھی نہیںہے، اوردیگر ضرورتوںسے فارغ ہے؛ تواس پر زکوٰۃ فرض ہوجائے گی(واضح رہے کہ یہ قیمت مثال کے طور پر بتائی گئی ہے)۔
تجارت اور بیوپارکاسامان
دیکھو! بیوپاراورتجارت کالفظ جب ہم بولتے ہیںتوہمارے ذہن میںاس کا ایک خاص مفہوم آتا ہے کہ آدمی کوئی دوکان کھول کربیٹھا ہو اوربیچنے کے لیے مال لایا ہو۔ یہاں زکوٰۃ کے معاملہ میں تجارت کاسامان وہ کہلائے گا جوخریدتےوقت بیچنےکی نیت سے خریدا گیاہو،چاہےدوکان لے کر نہ بیٹھا ہو۔ مثلاً: آپ نے زمین کا ایک پلاٹ خریدا، اورآپ کی نیت یہ ہے کہ اگرنفع ملے گا تو اس کوبیچ دوںگا؛تو آپ کایہ پلاٹ تجارت کا سامان کہلائے گاچاہے آپ ظاہری اعتبار سے لوگوں کی نگاہوں میں زمین کے تاجر نہیں ہیں۔یامثلاً آپ نے کوئی مکان خریدا اور خریدتےوقت آپ کی نیّت یہ تھی کہ اگر نفع ملے گاتو اس کوبیچ دوںگا؛تو یہ تجارت کا سامان کہلائے گا۔یامثلاً: آپ نے کوئی گھڑی خریدی، اورآپ کی نیت یہ تھی کہ اگر دو پیسے ملیں گےتومیں اس کوبیچ دوںگا؛ توچاہے آپ گھڑی کی دوکان کھول کر نہیں بیٹھے ہیں، اس کے باوجودآپ تاجر کہلائیں گے ۔
ایک غلط فہمی کی وضاحت
یہ بات یاد رکھئے،خاص کر پلاٹ،مکان وغیرہ کے معاملہ میںتو بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں،جب وہ اپنے زائد پیسوں سےزمین یامکان وغیرہ خریدتےہیں تو اسی نیّت سے خریدتے ہیں کہ جب زیادہ نفع ملےگا تواسےبیچ ڈالیں گے، اوران کویہ خیال بھی نہیںآتا کہ میرے پاس جو پلاٹ ہےوہ تجارت کا ہے، وہ یوںسمجھتاہے کہ میں کہاںاس کا تاجر ہوں۔توشریعت کی نگاہ میں جوچیز خریدتے وقت بیچنے کی نیت ہو توآپ اس کے تاجر کہلائیں گے، اس لئے کہ تجارت نام ہی خریدو فروخت کاہے۔ اسی لئے جوچیز آپ کے گھر میں پیداہوئی اس میں نیت بیچنے کی ہو تب بھی وہ تجارت نہیںہے،جیسے: ایک کسان آدمی ہے، اس کے کھیت میں چاول ہزار دوہزارکونٹل کی پیداوار ہوئی، اس کی نیت ہوئی کہ میں اس کوبیچوں گا،تو یہ چاول تجارت کاسامان نہیں ہے، اس لئے کہ اس نے خریدا نہیں، بلکہ اس کی زمین میں یہ پیدا ہوا ہے اب اگریہ چاول دوسال بھی اس کے گھر میں پڑا رہے،تو اس پرایک پائی بھی زکوٰۃ واجب نہیںہوگی ، ہاں! بیچنے کے بعدجب نقدپیسے آئیں گےتواس کا مسئلہ میں نے بتادیا۔تومعلوم ہواکہ جوچیز خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت ہو،چاہے بیچنے کی نیت سے مٹّی ہی خریدیں؛ تویہ تجارت کاسامان ہے۔اس تفصیل کواگرآپ سمجھ لیں توزکوٰۃ کے حساب کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوجائے گی۔
بہر حال!سونا،چاندی،نقدروپیہ اورتجارت کاسامان؛ ان چار مالوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ بعض لوگوںکے پاس پیسے زیادہ ہوتے ہیں توان پیسوں کونقد محفوظ رکھنے کے بجائے اس سےسونایاچاندی خریدلیتے ہیں،یا زیورات کے طورپر محفوظ کرتے ہیں توان میں تو زکوٰۃ آتی ہے،لیکن اگرکسی نے ہیرے خریدے، تو ہیرے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں!اگر بیچنے کی نیّت سے خریدےہیں تو تجارت کا سامان ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ فرض ہوگی، ورنہ نفس ہیرے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔کوئی آدمی اگر یوں کہےکہ یہ سونے سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہے، یاآج کل پلاٹینم خرید لیا جو سونے سے بھی زیادہ قیمتی دھات ہے، لیکن اس کے باوجود بیچنے کی نیت نہیں ہے تواس صورت میں وہ تجارت کا سامان نہیں ہے،اوریہ سوناچاندی نہیں ہے اس لئے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ میںیہ سمجھارہاہوں کہ کون سے مال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟تو بتلادیا کہ وہ چار قسم کے اموال ہوئے ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ وہ کتنی مقدار میں ہوںتو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟اس لئے کہ اگرکسی کے پاس سونا ہے لیکن ایک ہی تولہ ہے، یاچاندی ہے لیکن فقط دوچار تولے ہیں،یاروپیہ پیسے ہیںلیکن دوپانچ ہزار ہیں؛ تواس میں زکوٰۃ واجب نہیں۔ان میں ایک مقدار ہے جوابھی میں نے بتلائی،اوراس پر بھی جب پوراسال گزرجائے۔ آپ کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے، لیکن سال پورا ہونے سے پہلے آپ کے ہاتھ سے نکل گئے، چاہےخرچ ہوگئےیا چوری ہوگئےیاجوبھی ہوا؛ تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ توسال کابھی پورا ہونا ضروری ہے،توجس مال میں زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فی صد ادا کرے، لیکن پورا حساب کرکے نکالنا ضروری ہے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here