شائستہ تحریریں مصنفہ ندیم احمد انصاری،تحقیقی و تنقیدی مقالوں و مضامین کا مزین مجموعہ

ڈاکٹر خورشید نعمانی

سابق ایڈجنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی

            اسلامیات سے سرشار تحریروں کے بعد اب ندیم احمد انصاری کا قلم اردو ادب کی سمت جادہ پیما ہوا ہے۔ ’شائستہ تحریریں‘ ندیم احمد انصاری کے بارہ تحقیقی و تنقیدی مقالوں و مضامین کا مزین مجموعہ ہے۔ شروع کے تین مضامین تحقیقی اور باقی تنقیدی نوعیت کے ہیں۔

            امیر خسروؔ اور علماے اردو: صائب رائے یہی ہے کہ اردو دانی کے بنیاد گذار خسرو ہی ہیں۔ انھوں نے ہندی بھاشا کو عربی اور فارسی کی چاشنی سے مزے دار بنایا۔ خسروؔ جس طرح کے طباع ذہن شخص تھے، ان جیسا ہندستان میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ موجودہ دور میں چند نام نہاد فارسی داں- جو کہ اسلامی مملکتِ ایران کے وظیفہ یاب ہیں- یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ خسرو کا سب کلام خسرو کا نہیں ہے اور اس لیے اسے ردّکر دیا جائے۔خسرو کا کلام بلند بانگی کے بعد اعلان کرتا ہے کہ یہ اُنھی کا کلام ہے، دوسرا اس جادے پر قلم نہیں رکھ سکتا۔ یہ سارا کلام قابلِ قدر ہے۔ مصنف نے خسرو کے چند سوانحی کوائف بیان کرنے کے بعد کچھ علماے ادب کی رائیں پیش کی ہیں۔

            دوسرا مضمون ’بکٹ کہانی اور مفتی الٰہی بخش نشاطؔ کاندھلوی‘ تحقیق کا اچھا نمونہ ہے۔ ان کے کوائف قابلِ قدر ہیں۔ اردو زبان میں سب سے پہلا بارہ ماسہ افضل جھنجھانوی کا ہے۔ اسی طرز کا دوسرابارہ ماسہ ان کی وسعتِ علم اور عرفان و آگہی کا مرقع ہے۔بقول تنویر احمد علوی ’اس بکٹ کہانی کی زبان کا مطالعہ ہمیں اس کھڑی بولی کے اس روپ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، جو اردو کی اصل روپ ریکھا ہے‘۔

             تیسرا مضمون ’حاجی امداد اللہ مہاجرِ مکی اور ان کی ادبی خدمات‘ ہے۔ یہ مضمون بھی تحقیق کا اچھا نمونہ ہے۔ مصنف نے اس مضمون میں حضرت حاجی صاحب کی اصلاحی اور دینی خدمات کا اور ان کی شعری و نثری تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ اس میں حاجی صاحب کی چھے (۶) منثورات اور چھے (۶) مصنفات ،اور مومنؔ سے ان کے تعلقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چشتیہ و صابریہ سلسلے کے فروغ میں خاص طور سے ان کا ذکر بہت اہم ہے۔ اسی خانوادے سے میری نسبت بھی ہے۔

            چوتھا مضمون ’ خصوصیاتِ مضامینِ سیر سید‘ہے۔ یہ ایک مختصر مگر جامع مضمون ہے۔ سر سید کے ۱۱؍ضخیم مجموعۂ مضامین محمد اسماعیل پانی پتی نے شائع کیے ہیں۔ سر سید نے اپنے مضامین میں مسلمانوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے سیکڑوںمضامین لکھے ہیں،جس سے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان بغیر حکومتی مالی مدد کے خود اپنے گھروں پر بیٹھ کر یہ کام کر سکتے ہیں۔

            پانچواں مضمون ’مولانا حالیؔ اور موجودہ نظامِ تعلیم‘ ہے۔ مضمون نگار نے اس مضمون میں تعلیم کے معنی، توصیف، اہمیت اور افادیت بیان کی  اور تعلیم کی اہمیت و معنویت پر مولانا حالیؔ کے اشعار سے روشنی ڈالی ہے۔ حالی جدید سائنسی علوم کو حاصل کرنے کے حق میں تھے۔ تعلیم سے فرار کو گناہ سمجھتے تھے۔ وہ صنعت کاری اور دست کاری کو فروغ دینے کے حق میں تھے۔ تعلیم محض کلرک ہی نہ پیدا کرے بلکہ اعلیٰ درجے کے افسران پیدا کرے۔ تعلیم انسانوں کے پژمردہ لوگوں کو متحرک کرنے کی نیت سے حاصل کرنی چاہیے ، وغیرہ۔

            چھٹا مضمون ’فانی: شخصیت و فن‘ ہے۔ اس میں مضمون نگار نے فانی کی شخصیت اور فن کا مجمل جائزہ لیا ہے۔ فانی کی ایک تحریر پیش کرکے ان کی سوانح پر روشنی ڈالی ہے، جسے پڑھنے کے بعد اگر انھیں یاسیات کا امام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مضمون نگار نے ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر صبا صدیقی اور پروفیسر آلِ احمد سرور کی تحریروں کے اقتباسات پیش کرکے کلامِ فانی کا کامیاب تنقیدی جائزہ لیا ہے۔

            ساتواں مضمون ’مولانا ابو الکلام آزاد اور اردو صحافت‘ ہے۔ مولانا آزاد کے سوانحی کوائف بیان کرنے کے بعد تفسیر ’ترجمان القرآن‘، مولانا کی سیرۃ النبی ’رسولِ رحمت‘ جسے غلام رسول مہر نے شائع کیا ہے، مولانا کی مختصر شاعری، ’تذکرہ‘، ’غبارِ خاطر‘، ہندستان کی سیاست میں ان کی شرکت اور عظیم قربانی، ہندستان کی صحافتی خدمات میں ان کے اخبار ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور بعد ۱۹۰۶ء میں ’الندوہ‘ کی شرکت بڑی اہم ہے۔ مضمون نگار نے مولانا کی صحافت کے چار ادوار قائم کیے ہیں؛۱۹۰۳-۱۸۸۳ء میں ’خدنگِ نظر‘، ’نیرنگِ عالم‘، ’المصباح‘، ’احسن الاخبار‘، ’لسان الصدق‘، ’وکیل‘ کو شامل کیا ہے۔ دوسرا دور علامہ شبلی کی طرف سے ’الندوہ‘ میں شرکت اور اس کے بعد ۱۹۱۲ء میں ’الہلال‘ کا جاری کرنا ہے، جس نے اردو صحافت کی دنیا میں ہندستان میں آزادی کی سورش کو عام کیا اور ۱۹۱۲ء میں ’الہلال‘ کو حکومت نے بند کر دیا، پھر مولانا نے ۱۹۱۴ء میں ’البلاغ‘ کا اجرا کیا، لیکن وہ بھی بند ہو گیا۔ مضمون نگار کی یہ رائے صائب ہے:’مولانا کے نزدیک صحافت ترسیل و ابلاغ کے ساتھ رائے سازی و رہنمائی کا بھی وسیلہ تھا، لیکن ان کی سیمابی طبیعت کسی ایک جگہ ٹھہر کر کام کرنے کا موقع نہ دیتی تھی‘۔

             آٹھواں مضمون ’خلیل الرحمن اعظمی: حیات و تصنیفات‘ ہے۔اس میں خلیل الرحمن اعظمی کے مختصر کوائف بیان کرنے کے ساتھ ان کے تین مجموعۂ کلام، مستقل شائع شدہ بعض طویل نظمیں، دو شعری انتخابات اور تین تحقیقی مضامین کا ذکر شامل ہے۔تحقیقی کاموں میں ان کے’ مقدمۂ کلامِ آتش ؔ‘کو بڑی شہرت حاصل ہوئی، جب یہ چھپی تو پورے ملک کے ادبی حلقے میں اس کا بڑا غلغلہ تھا۔ اسی طرح کئی نظموں کے شعروں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مضمون نگار کی یہ رائے اپنی جگہ حرف بہ حرف صحیح ہے: ’اردو کی جدید شاعری میں خلیل الرحمن اعظمی کا نام ایک ممتاز مقام کا حامل ہے۔ خلیل کی نظموں میں رومانیت کا عنصر اور نئے لہجے کا احساس نمایاں ہے، ان کی دھیمی خود ملالی ان کی داخلی کیفیت کو سمیٹنے میں معاونت کرتی ہے‘۔

            نواں مضمون ’خلیل الرحمن اعظمی کی نظمیہ شاعری‘ہے۔ نظم نگاری میں ان کا لہجہ بالکل منفرد تھا۔ ’نیا عہد نامہ‘، ’میں گوتم نہیں ہوں‘، ’دوسری ملاقات‘ جیسی نظموں میں دورِ حاضر کے انسان کا المیہ خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔بقول مضمون نگار ’ خلاصہ یہ کہ خلیل کی نظمیہ شاعری میں انسانی مسائل کا پُر تاثیر بیان، جذبات کی ترجمانی اور غم و سرور کی کیفیات وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔ جس کا راز یہ ہے کہ وہ پوری تن دہی سے اپنے شعروں کو تراشتے تھے، جو عمدہ تخلیق کا لازمہ ہے‘۔

             دسواں مضمون زکی کیفیؔ اور ان کی شعری کیفیات‘ ہے۔ زکی کیفی دیوبند میں ایک عظیم علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سابق مفتیِ اعظم ہند ثم پاکستان مولانا محمد شفیع عثمانی علم و فضل میں یکتا تھے۔ بقول مضمون نگار ’کیفی کے کلام میں عرفان و آگہی، سنجیدگی و شایستگی، دل کشی و رعنائی اور نرمی و لطافت سبھی کچھ موجود ہے، مگر افسوس کہ ان کو وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔‘ ندیم احمد انصاری نے بہت اچھا کام کیا کہ ایک اعلیٰ درجے کے قادر الکلام شاعر کو گوشۂ عافیت سے نکال کر قصبۂ شہود پر لا کھڑا کیا۔ بعض اوقات لوگ اپنی منکسر المزاجی اور سادہ لوحی کے سبب گم نام رہ جاتے ہیں اور لوگ ان کو جانتے تک نہیں۔اب ’کیفیات‘ کے نام سے ان کا مجموعۂ کلام بھی شائع ہو چکا ہے جو کہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ایک حمد اور دو قصیدے، دوسرے حصے میں ڈیڑھ سو غزلیں اور تیسرے حصے میں جذبۂ حب الوطنی سے سرشار نظمیں شامل ہیں۔

            گیارہواں مضمون ’جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی نظم و نثر‘ ہے۔ جسٹس تقی عثمانی، زکی کیفی کے چھوٹے بھائی اور مفتیِ اعظم محمد شفیع عثمانی کے خلف الرشید ہیں، گویا ایں خانہ تمام آفتاب است۔ زکی کیفی کو متعارف کرانے کے بعد جسٹس تقی عثمانی کو بھی متعارف کرانے کا اچھا کام کیا ہے۔ مضمون نگار نے جسٹس تقی عثمانی کے مختصر کوائف بیان کرنے کے بعد ان کی نثر ی مصنفات اور شاعرانہ بصیرت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ پاکستان میں سپریم کورٹ میںشریعہ ایپلیٹ بینچ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع عشقِ حقیقی ہے اور بہ اعتبارِاصناف انھوں نے حمد، مناجات، نعت ، مرثیے اور غزلوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے کلام میں اسلامی تلمیحات ملتی ہیں۔ ان کی شاعری تصنع سے پاک ہے۔ ان کے کلام میں ظاہری و معنوی خوبیوں کے ساتھ ذہنی بلکہ روحانی آسودگی کا سامان موجود ہے۔

            بارہواں مضمون ’ماہ نامہ شگوفہ کی ادبی و صحافتی خدمات‘ ہے۔ ماہ نامہ شگوفہ طنز و مزاح کا ایک ڈیڑھ ماہی رسالہ حیدرآباد میں ڈاکٹر مصطفی کمال کی ادارت میں ۱۹۶۸ء میں نکلنا شروع ہوا، جو ۱۹۷۳ء سے یک ماہی ہو گیا۔طنز و مزاح کی صنف کو ایک زمانے تک کمتر نظروں سے دیکھا گیا لیکن اسی زمانے میں اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس کے لکھنے والوں کی ایک ٹیم پیدا ہوگئی جن میں اہم نام مجتبیٰ حسین، سلیمان اطہر جاوید، سلمان خطیب، بھارت چندر کھنہ، رضا نقوی واہی، بریک لکھنوی، سگار لکھنوی، ماچس لکھنوی وغیرہ شامل ہیں۔ مضمون نگار نے اس رسالے کی صحافتی خصوصیات قلمبند کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ایسے رسائل و جرائد جنھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان پر تحقیقی کام کیا جائے اور ان اصناف پر کام کرنے والوں کے لیے خام مواد پیش کیا جائے۔

            شائستہ تحریرں آپ کی نظر سے گذریں، امید ہے کہ ان تحریروں سے آپ کے علم میں اضافہ ہوا ہوگا۔ امیدِ واثق ہے کہ اسے بھی حسبِ سابق پذیرائی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here