شب قدر خاص امتِ محمدیہ کے لیے

شبِ قدر خاص امتِ محمدیہ کے لیے، ندیم احمد انصاری

اس باب میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا شبِ قدر گذشتہ امتوں میں بھی تھی یا صرف اسی امت کو خصوصیت کے ساتھ دی گئی ہے؟ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے جب نظر کی اور آپ کو معلوم ہوا کہ گذشتہ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیںتوآپﷺ کو خیال گزراکہ میری امت کی عمریں تو ان کے بالمقابل بہت کم ہیں،جس کی وجہ سے ثواب و درجات میں بھی کمی رہے گی۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہ رات عنایت فرمائی اور اس پر ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ثواب دینے کا وعدہ فرمایا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی امت کو یہ رات دی گئی ہے۔صاحبِ’ عدۃ‘جوکہ شافعیہ میں سے ایک امام ہیں،انھوں نے جمہور کا یہی قول نقل کیا ہے، لیکن ایک حدیث میں ہے کہ جس طرح یہ رات اس امت میں ہے،اسی طرح سابقہ امتوں میں بھی تھی۔

شبِ قدر کب ہوتی ہے؟
حضرت مرثدؒ فرماتے ہیں؛میں نے حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:آپؓ نے رسول اللہﷺ سے شبِ قدر کے متعلق کیا سوال کیا تھا؟آپؓ نے فرمایا:سنو! میں حضورﷺ سے اکثر باتیں دریافت کیا کرتا تھا،ایک مرتبہ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ شبِ قدر رمضان ہی میں ہے یا دیگر مہینوں میں؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان میں۔
میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !یہ انبیاء ہی کے ساتھ خاص ہے کہ جب تک وہ دنیا میں موجود ہیںیا ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی یہ رات قیامت تک باقی رہے گی؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ایسا نہیں ہے،بلکہ یہ رات قیامت تک باقی رہے گی۔
میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ!یہ رمضان کے کس حصّے میں ہے؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اسے رمضان کے پہلے اور آخری عشرے میں تلاش کرو۔
پھر میں خاموش ہو گیا،آپ بھی دیگر باتوں میں مشغول ہو گئے۔
میں نے پھر موقع پاکر عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! ان دونوں عشروں میں سے کس عشرے میں تلاش کروں؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:آخری عشرے میں،بس اب اس سلسلے میں اور کچھ نہ پوچھنا۔
میں پھر خاموش رہا،لیکن پھر موقع پاکر میں نے عرض کیا:آپ کو قسم ہے، میرا بھی آپ پر کچھ حق ہے!بتا دیجیے وہ کون سی رات ہے؟
آپﷺ سخت غصے ہو گئے،میں نے تو اس سے قبل آپﷺ کو اپنے اوپر اتنا غصّے ہوتے دیکھا ہی نہیں۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:آخری ہفتے میں تلاش کرو،اب کچھ نہ پوچھنا۔
اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں، ایک یہ کہ یہ رات سابقہ امتوں میں بھی تھی اوردوسرے یہ کہ یہ رات رسول اللہﷺ کے بعد بھی قیامت تک ہر سال آتی رہے گی۔بعض شیعہ حضرات کا قول ہے کہ یہ رات بالکل اٹھ گئی ہے،یہ غلط ہے۔انھیں غلط فہمی اس روایت سے ہوئی،جس میں یہ وارد ہوا ہے کہ ’’وہ اٹھا لی گئی ہے اور ممکن ہے کہ تمھارے لیے اسی میں بہتری ہو‘‘۔جب کہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اُس رات کی تعیین اور اس کا تقرر اٹھا لیا گیاہے،نہ کہ سرے سے یہ مبارک رات۔مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رات رمضان المبارک میں آتی ہے،کسی اور مہینہ میں نہیں۔جب کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور علماے کوفہ کا قول یہ ہے کہ یہ سارے سال میں سے ایک رات ہے اور ہر مہینے اس کا وقوع ممکن ہے،مذکورہ بالا روایت اس موقف کے خلاف ہے۔سنن ابو داود میں ایک باب ہے:’اُس شخص کی دلیل،جو یہ کہتا ہے شبِ قدر رمضان میں ہے۔‘امام ابوداؤد اس باب کے تحت یہ روایت لائے ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے شبِ قدر کے بارے میںدریافت کیا گیاتو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:شبِ قدر سارے رمضان میں ہے۔اس کی سند کے کُل راوی ثقہ ہیںاور یہ موقوفاً بھی مروی ہے۔(سنن أبی داود)

شبِ قدر کی دعا
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :اگر میں شبِ قدر کو پاؤںتو کیا دعا کروں ؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم اس طرح دعا کرو؛
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاَعْفُ عَنِّی۔(ترمذی)
اے اللہ! آپ بہت معاف فرمانے والے اور معافی کو پسند فرمانے والے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرما دیجیے۔

شبِ قدر کے اعمال
شبِ قدر میں بہ کثرت یہ دعا پڑھنا مستحب ہے، اس کے علاوہ تلاوتِ قرآن یا دیگر ماثور دعاؤں میں مشغول رہنا بھی مستحب ہے۔نیز امام شافعیؒ نے ایک بہت پیاری بات ارشاد فرمائی ہے ،جس سے اکثر لوگ غفلت برتتے ہیں،وہ یہ کہ اس دن میں بھی اسی طرح کوشش ومحبت سے دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے جس طرح رات میں مشغور رہتے ہیں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اس رات میں مسلمانوں کی مہمات و مشکلات کی آسانی کے لیے بھی دعا کرے،کیوں کہ صالحین اور اللہ تعالیٰ عارفین بندوں کا شعار رہا ہے۔(کتاب الاذکار)

اجتماعی شب بیداری کرنا
بعض جگہ شب ِ قدر میں لوگ جمع ہوکر (اجتماعی طور پر ) شب بیداری کا خاص اہتمام کرتے ہیں، ایسا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔اتفاقاً اگر دو چار آدمی جمع ہو جائیں تو اور بات ہے۔ بہ طور خود ہر شخص حسب ِ ہمت عبادت میں مشغول رہے ، اس طرح خاص اہتمام اور انتظام خلاف ِ شرع ہے۔(اصلاح الرسوم)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here