شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی حیات و خدمات پر مستند تحقیقی کاوش

ترتیب: مفتی عبد القیوم راج کوٹی[معین مفتی جامعہ ڈابھیل، گجرات]
تعارف و تبصرہ: مولانا ندیم احمد انصاری[ڈیرکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا]
مجمع الفضائل، علامہ، فقیہ، محدث، محقق، ادیب، صوفی، مسنِد، ڈاکٹر، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، حلبی، شامی، حنفی، نقشبندی، کوثری  [۱۴۱۷ھ]کے نام اور کام سے عالمِ اسلام ناواقف نہیں۔عالمِ عرب ہی نہیںپورا عالمِ اسلام، اس عظیم المرتبت شخصیت کو نہ صرف جانتابلکہ ان کے رسوخ فی العلم کا لوہا مانتا ہے۔بہ قول فقیہ مصطفیٰ احمد زُرقا:’ سو سال میں بھی شیخ عبد الفتاح کا بدل ملنا بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے‘۔ اور بہ قول شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ: ’عرب دنیا میں وہ اپنے وسیع و عمیق علم، اتباعِ سنت اور ورع و تقویٰ میںنمایاں امتیاز رکھتے تھے اور برِ صغیر پاک و ہند کے علما کے تقریباً تمام حلقوں میں انتہائی مقبول اور ہر دل عزیز شخصیت کے حامل تھے‘۔اھ
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کو دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح مخالفتوں، بلکہ ریشہ دوانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی سطح مخالفین سے ہمیشہ بلند رہی۔ وہ ایک بافیض شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی گو نا گوں علمی تحقیقات و تعلیقات سے اہلِ علم مسلسل استفادہ کرتے رہتے ہیں، اور ابھی ان کے بہت سے تلامذہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں بر سرِ پیکار ہیں۔راقم (ندیم احمد انصاری عفی عنہ) کی خوش بختی ہے کہ استاذی المکرم حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی مدظلہ (شیخ الادب و استاذِ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) کی وساطت سے شیخ سے تلمذ کا شرف حاصل ہے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی حیات و خدمات پر عربی زبان میں بھی اب تک کما حقہ کام نہیں ہوا، البتہ ان کی کُتب کا تعارف خوب ہوا ہے۔اُردو زبان کے دامن میں تو اس سلسلے کے چند ایسے پھول ہی تھے جو پوری طرح کِھل بھی نہیں سکےتھے۔ اب ایک صاحبِ علم و قلم نے ان کی آب یاری پر توجہ دی، چند نئے پودے لگائے، اورنئے پُرانے ہر رنگ کے پھولوں سے ایک خوب صورت گل دستہ تیار کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کی خوش بو نے اہلِ علم کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا ہے اور باذوق قارئین اس پر پروانہ وار منڈلانے لگے ہیں۔ راقم کی مراد مفتی عبد القیوم راج کوٹی (معین مفتی جامعہ ڈابھیل، گجرات) ہیں، جو درجنوں کے کتابوں کے مصنف، مؤلف، مرتب ہیں۔ شیخ عبد الفتاح کی حیات و خدمات پر موصوف نے ایک تازہ علمی، تحقیقی کاوش پیش کی ہے، جس پر وہ اہلِ علم کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ خالص علمی و تحقیقی ذوق کے باجود انھوں نے شام میں ’اخوان المسلمین‘ کی سربراہی بھی کی۔ وہ مسلم ممالک کو پیش آمدہ مسائل کے حل کرنے مین بھی کوشاں رہے اور اس کے لیے اعلیٰ قیادتوں سے رابطہ بھی کیا۔ روس کے زوال کے بعد افغانستان گئے اور سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق و اتحاد کی کوشش کرتے رہے۔ دینی جماعتوں اور مکاتبِ فکر سے بھی قریب رہے۔ انھوں نے تبلیغی جماعت کو سراہا اورجماعتِ اسلامی کی کوششوں کو بہ نظرِ تحسین دیکھا۔ انھوں نے عارف باللہ شیخ عیسیٰ بیانونی [۱۲۹۰ھ]  سے خصوصی استفادہ کیااور علمِ نبوت کے ساتھ نورِ نبوت کو جمع کیا، اسی کا ثمرہ ہے کہ ان کی علمی، عملی اور فکری زندگی میں اعتدال تھا اور تواضع اور اخلاقِ شیریں ان کی طبیعت میں شامل نظر آتے ہیں۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کا ایقان تھا کہ محض اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کر لینا انسان کو منجھا ہوا عالِم اور اسخ فی العلم نہیں بناتا، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان علمی کاموں میں لگا رہے، اکابر کی کتابوں سے دل چسپی اور وابستگی رکھے، ان کے ساتھ شغل کو غنیمت سمجھےاور حتی المقدور ان پر تحقیقی کام کرے۔ یہ وہ عملی میدان ہے جس میں انسان کچھ سیکھتا ہے، اسلاف کے علوم سے مستفید ہوتا ہے اور اس کی زندگی کتابوں میں بسر ہونے لگتی ہے۔ انھوں نے خود بھی اسی کے مطابق زندگی گذاری،حتی کہ قید و بند میں بھی کتابوں سے اُنس حاصل کرتے رہے۔ تدمُر کے قید کھانے کا ذکر کرتے ہوئے وہ قواعد الکتاب فی علوم الحدیث میں لکھتے ہیں کہ ’میرے لیے وحشت اور گھر سے دوری کے دوران یہ کتاب ایک بااخلاق انسان سے بہتر ثابت ہوئی‘۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے اپنی زندگی میں کثرت سے اسفار کیے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، دمشق، یمن، عراق، ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، ترکی، سوڈان، فلسطین، بحرین، سمرقند، بخارا، افغانستان، کویت، امارات، انڈونیشیا، کینیڈا، یوروپ اور امریکا وغیرہ میں دعوت و تبلیغ اور حصولِ علم کے شوق میں وہ بار بار جاتے رہے۔ہندستان میں اسی مقصد کے تحت وہ پانچ مرتبہ تشریف لائے اور دیوبند، سہارنپور، تھانہ بھون، جلال آباد، لکھنؤ، کولکاتہ، علی گڑھ وغیرہ کے علاوہ مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں تشریف لے گئے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے عربی تذکرہ نگاروں نے ان کے ہند و پاک کے اسفار کا کماحقہ تذکرہ نہیں کیا، لیکن یہ کمی مؤلف و مرتبِ کتاب مفتی عبد القیوم صاحب نے پوری کر دی ہے ۔
کتاب کُل بارہ ابواب پر مشتمل ہے: (۱)ولادت، نام، وطن اور پیشہ:اس باب میں شیخ  کی خود نوشتہ تحریروں کی مدد سے ان کی ولادت، وطن اور پیشے سے متعلق گفتگو قلم بند کی گئی ہے(۲)تعلیم و خدمات: اس باب میں شیخ کی تعلیم و تدریس کی تفصیلات مذکور ہیں، جس کے مطالعے سے حصولِ علم کی راہ میں ان کی قربانیوں اور ’جامعہ امام محمد بن سعود‘ اور ’جامعۃ الملک سعود‘ سے وابستگی اور ’رابطۂ عالمِ اسلامی‘ کی رکنیت کے زمانے کے احوال معلوم ہوتے ہیں (۳)اوصاف و کمالات:اس باب میں شیخ کے اخلاق، عادات،اوصاف، کمالات، نیز بیعت و ارشاد کا مفصل اور دل چسپ تذکرہ موجود ہے(۴)علم کے شیدائی: اس باب میںذکر کردہ تفصیلات سے شیخ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو یعنی فنا فی العلم ہونا واضح آتا ہے (۵)اسفار: اس باب میں شیخ کے عالمی اسفار اور بہ طور خاص ہندوپاک کے سفروں کاذکر مذکور ہے(٦)وصال و پس ماندگان: اس باب میں شیخ کے آخری لمحات، وصال اور پھر تدفین نیز اہل و عیال کا تذکرہ اور مولانا علی میاں ندوی  کا ایک تعزیت نامہ درج ہے(۷)شیخ عبد الفتاح ابوغدہ اہلِ علم کی نظر میں: اس باب میں علماے عرب، علماے ہندستان اور علماے پاکستان کے تاثرات مذکور ہیں(۸)تصنیف و تحقیق کا اسلوب اور منہج: اس باب میں شیخ کے مخصوص علمی، تحقیقی و تصنیفی مزاج کا بیان ہے، اس طرح یہ باب اہلِ علم و قلم کے لیے خاصے کی چیز ہے (۹)شیخ کی تالیفات و تعلیقات:اس باب میں شیخ کی انہتر/٦۹ تالیفات و تعلیقات کا بھرپور تعارف کروایا گیاہے (۱۰)شیخ کا چشم کشا اہم انٹریو: اس باب میں شیخ کے ایک اہم انٹرویو کے علاوہ قیمتی ملفوظات کا بھی تذکرہ ہے (۱۱)ہند و پاک کے جامعات و کتب خانوں میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی خود نوشتہ تحریریں: شیخ نے اپنے اسفار کے دوران جن جامعات اور کتب خانوں کے معائنہ رجسٹر میں کوئی تحریررقم فرمائی تھی،مرتبِ کتاب نے تگ و دو کے بعد انھیں حاصل کر کے قارئین کی نذر کیا ہے (۱۲)شیخ اپنے گرامی ناموں کے آئینے میں: اس باب میں کُل انیس/۱۹ گرامی ناموں کو ان کے پس منظر کے ساتھ شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں مفتی عبد القیوم صاحب نے جا بہ جا قیمتی اور ضروری حواشی بھی رقم کیے ہیں، جو خصوصیت سے قابلِ مطالعہ ہیں۔انھوں نے بڑی محنت و جستجو کے ساتھ ہند و پاک کے مختلف اداروں اور متعدد اہلِ علم اشخاص سے معلومات حاصل کیں اور شیخ کی حیات و خدمات پر لکھی ہوئی تقریباً تمام کُتب و رسائل کاعطر نچوڑ کر ایک خوب صورت شیشی میں پیش کر دیا۔ ایک ایک موتی انتہائی سلیقے سے جَڑا، اور ہر بات کو باحوالہ ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ انھیں اس سلسلے کا طویل تجربہ ہے، اس کے باوجود شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کے شاگردِ رشید شیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار سورتی کی نگرانی میں اُنھوں نے یہ کام انجام دیا ہے، جس سے کتاب کا حسن دو بالا ہو گیا ہے۔ کُل ملا کر کتاب اپنے موضوع و موادکےلحاظ سے اس قابل ہے کہ قیمتاً خرید کر اس کا مطالعہ کیا جائے۔ طباعت اعلیٰ، عنوانات رنگین، کاغذ عمدہ اور جلد مضبوط ہے۔
نوٹ: [۱] کتاب حاصل کرنے کے لیے مکتبہ انور/ ادارہ صدیق، ڈابھیل ، گجرات [۲] مکتبہ حرا (لکھنؤ) [۳] الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا (ممبئی) [۴] دارالعلوم زکریا (جنوبی افریقہ) [۵]مولانا طلحہ قرطبہ بُکس (انگلینڈ) [٦] دارالحکمہ بک اسٹور(امریکا) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here