فتنوں کا دور ہے، ذرا سنبھل کے

مولانا ندیم احمد انصاری

یہ وہ دور ہے جسے فتنوں کا دور کہا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گویا فتنے اُبل پڑے ہیں۔ لیکن اس موضوع پر جیسی توجہ دی جانی چاہیے، نہیں دی جا رہی۔ہر ایک اپنی زندگی میں مست اور آخرت سے غافل ہے۔ نتیجہ سامنے ہے؎
نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے
مناسب معلوم ہوا کہ اس موضوع پر سیدالانبیاوالمرسلین حضرت محمد ﷺ کے چند ارشادات پیش کر دیے جائیں۔ احادیث کی تشریح بالقصد نہیں کی گئی۔ پڑھتے جائیے اور اپنے آس پاس کا جایزہ لیتے جائیے نیز اپنی اور اپنوں کی فکر کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ خیر و عافیت کا معاملہ فرمائے۔ آمین

چوکنّا رہنے کی ضرورت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: عنقریب ایک اندھا، بہرا، گونگا فتنہ ہوگا، جو اس کی طرف توجہ کرے گا وہ اس کے نزدیک ہوجائے گا۔ اور زبان کو اس کی طرف متوجہ کرنا ایسا ہے جیسے تلوار سے اس میں شریک ہونا (یعنی زبان کو فتنوں کے دور میں مزید روکے رکھنا چاہیے)۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:‏ سَتَكُونُ فِتْنَةٌ صَمَّاءُ بَكْمَاءُ عَمْيَاءُ مَنْ أَشْرَفَ لَهَا اسْتَشْرَفَتْ لَهُ وَإِشْرَافُ اللِّسَانِ فِيهَا كَوُقُوعِ السَّيْفِ.(ابوداؤد)

صبر سے کام لیں

حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اللہ کی قسم! بے شک میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا رہا! بے شک سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا رہا! بے شک سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا رہا! اور جو فتنوں میں مبتلا ہوگیا، پھر اس نے صبر کیا، تو اس کے کیا کہنے !عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ايْمُ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنِ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنِ جُنِّبَ الْفِتَنَ وَلَمَنِ ابْتُلِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَبَرَ فَوَاهًا.(ابو ددود)

اور دروازہ توڑ دیا گیا

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیاکہ فتنے کے متعلق حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کو کون بخوبی بیان کرسکتا ہے؟ حضرت حذیفہ نے عرض کیا: میں! پھر حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ کس شخص کے لیے اس کے اہل و عیال مال اور اس کا پڑوسی فتنہ ہیں اور ان فتنوں کا کفارہ نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: میں اسے فتنے کے متعلق نہیں پوچھ رہا، میں تو اس فتنے کی بات کر رہا ہوں جو سمندر کی موج کی طرح اٹھے گا؟ میں نے عرض کیا: امیرالمومنین آپ کے اور اس عظیم فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے! حضرت عمر نے فرمایا: کیا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑدیا جائے گا؟ حضرت حذیفہ نے عرض کیا: توڑدیا جائے گا۔ حضرت عمر نے فرمایا: تو پھر وہ قیامت تک دوبارہ بند نہیں ہوگا! ابو وائل اپنی حدیث میں حماد کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں کہ میں نے مسروق سے کہا کہ حذیفہ سے پوچھیے کہ وہ دروازہ کیا ہے؟ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا: وہ حضرت عمر کی ذات ہے۔عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْفِتْنَةِ ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ يُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ عَنِ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ:‏‏‏‏ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَيُفْتَحُ أَمْ يُكْسَرُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بَلْ يُكْسَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا لَا يُغْلَقُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو وَائِلٍ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ لِمَسْرُوقٍ:‏‏‏‏ سَلْ حُذَيْفَةَ عَنِ الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ.(ترمذی)

اپنے ایمان کی فکر کریں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد سےجلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے۔ صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر، یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کو کافر، اور دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا.(مسلم)

پانی کے قطروں کی طرح

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نبی کریم ﷺ مدینے کے ایک ٹیلے پر چڑھے اور فرمایا: کیا تم دیکھ رہے ہو کہ میں تمھارے گھروں کے اندر فتنوں کو پانی کی طرح برستا ہوا دیکھ رہا ہوں!عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْرَفَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى ؟ إِنِّي أَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ.(بخاری)

پیشین گوئی سچ ہو گئی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عنقریب فتنوں کا ظہور ہوگا۔ ان فتنوں کے زمانے میں بیٹھنے والا بہتر ہوگا چلنے والے سے، اور چلنے والا بہتر ہوگا دوڑنے والے سے۔ جو شخص ان فتنوں کی طرف جھانکے گا، فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ (اس زمانے میں) اگر کوئی پناہ کی جگہ پائے تو وہاں جا کر پناہ حاصل کرلے۔أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏ سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ.(بخاری)

فتنوں سے بچنے کا راستہ

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ ﷺ سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ ﷺ سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا، اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنے میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے، پھر خداوند تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا۔ کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! میں نے عرض کیا: اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہوگی ؟ فرمایا: ہاں ! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا: وہ کدورت کیا ہوگی ؟ فرمایا: کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقے کے خلاف طریقہ اختیار کریں گے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے۔ تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی۔ عرض کیا گیا: کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہوگی ؟ فرمایا: ہاں ! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے، جو ان کی بات مان لیں گے، وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے! آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا: اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپﷺمجھ کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام کی اطاعت کرو! میں نے عرض کیا: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو(تو کیا کروں)؟ آپﷺ نے فرمایا: تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجا، اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے، یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آجائے۔حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا دَخَنُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ.(بخاری)

حاکموں کے در پہ جانا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے جنگل میں سکونت اختیار کی وہ سخت خو اور بدخلق ہوگیا، جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہوگیا، جو حاکموں کے دروازے پر گیا وہ فتنوں میں مبتلا ہوگیا۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:‏‏ مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتِنَ. (ترمذی)

سماج میں رہنا مشکل ہو جائے گا

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ زمانہ بہت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں جنھیں وہ پہاڑوں کے دروں اور جنگلوں میں لے کر چلا جائے اور اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ رکھے۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يُوشِكَ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الرَّجُلِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ. (بخاری)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here