قربانی کی قضا یعنی اگر وقت رہتے قربانی ادا نہ کی گئی تو اب کیا کرے؟

مولانا ندیم احمد انصاری

قربانی صحیح ودرست ہونے کے لیے اس کا اپنے مقررہ اوقات میں ادا کرنا ضروری ہے۔ قربانی کے ایام جمہور کے مطابق تین دن ہیںاور چوں کہ قربانی اپنے مخصوص اوقات میں برائے قربت ہے، اس لیے وقت کے فوت ہوجانے سے قربانی جائز یا درست نہیں ہوتی۔ ایام الاضحی ثلثۃ، یوم الاضحی بعد طلوع الفجر۔۔۔ لان الذبح عرف قربۃ فی ھذا الوقت المخصوص فتفوت بفواتہ۔ [الولوالجیۃ] یعنی حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایامِ قربانی تین دن ہیں؛ عید کا دن اور ایامِ تشریق کے پہلے دو دن؛ یعنی ذی الحجہ کی ۱۰/ ۱۱/ ۱۲ تاریخ۔ ذہب الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ إلی أن أیام التضحیۃ ثلاثۃ: وہی یوم العید الیومان الأولان من أیام التشریق۔ [الموسوعۃ الفقہیۃ]

قربانی کی قضا

اگر کسی شخص نے ایامِ قربانی میں قربانی نہ کی، حالاں کہ قربانی اس پر واجب تھی، تو بعد میں اس پر ندامت و توبہ اور اس کی قضا واجب ہوگی۔ اگر خوش حال آدمی تھا اور کوئی متعین جانور اس نے قربانی کی نیت سے نہیں خریدا تھا تو قضا کی دو صورتیں ہیں؛(۱)یا تو زندہ جانور خرید کر صدقہ کردے، یا اس کی قیمت صدقہ کردے۔ اور اگر غریب محتاج آدمی نے کوئی جانور قربانی کی نیت سے خرید لیا تھا یا کسی جانور کے متعلق قربانی کی نذر مان لی تھی تو ایامِ قربانی گزر جانے کے باوجود قربانی نہ کیے جانے کی صورت میں بعینہٖ اسی جانور کو صدقہ کردینا واجب ہے، نیز اس کا مصرف اب صرف فقرا ہوں گے(۲) اگر کوئی غنی قربانی کا جانور لے اور وہ ایامِ قربانی میں گم ہوجائے اور وہ اس کی جگہ دوسرا کوئی جانور ذبح کردے، پھر وہ پہلا جانور مل جائے تو اب اس جانور کی قربانی واجب نہیں، لیکن اگر کوئی محتاج (جس پر قربانی واجب نہیں تھی) اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئے تو اس گم شدہ جانور کے ملنے کے بعد اس کی قربانی کرنی ہوگی۔ اس طرح قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانور کو اگر کسی عذر کے باعث قبل از وقت ذبح کرنا پڑے تو وہ صدقے کا جانور شمار ہوگا اور اس کا اپنی ذات کے لیے استعمال درست نہ ہوگا، صرف فقرا ہی اس کے مستحق ہوں گے۔ ولو لم يضح حتى مضت أيام النحر فقد فاته الذبح فإن كان أوجب على نفسه شاةً بعينها بأن قال: لله علي أن أضحي بهذه الشاة سواء كان الموجب فقيرًا أو غنيًا، أو كان المضحي فقيرًا وقد اشترى شاةً بنية الأضحية فلم يفعل حتى مضت أيام النحر تصدق بها حية، وإن كان من لم يضح غنيًّا ولم يوجب على نفسه شاةً بعينها تصدق بقيمة شاة اشترى أو لم يشتري، كذا في العتابية.[ہندیہ]

قربانی کی قضا میں قربانی یا صدقہ

قربانی کی قضا قربانی کی صورت میں ادا نہیں ہوسکتی بلکہ ہرسال کی قربانی کے بدلے جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے۔اس لیے کہ قربانی کرنا مطلقاً اور ہر زمانے میں ثواب کا باعث نہیں بلکہ یہ حکم ایامِ نحر وغیرہ کے ساتھ خاص ہے، جب ایامِ قربانی گزر چکے تو قربانی کا حکم باقی نہیں رہا، بلکہ جانور یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنالازم ہو گا۔علامہ کاسانی لکھتے ہیں:قربانی کی قضا (جانور ذبح کرنے یعنی)خون بہانے سے نہیں ہوسکتی،کیوں کہ خون بہانا عقلاً قربت نہیں ہے، اسے شرع کی وجہ سے ایک مخصوص وقت میں قربت قرار دیا گیا ہے ،اس کا قربت ہونا مخصوص وقت تک ہی محدود رہےگا ،وقت کے ختم ہونے کے بعد اس طرح قضا نہیں ہوسکتی۔انھا لاتقضی بالاراقۃ لأن الاراقۃ لا تعقل قربۃ وانما جعلت قربۃ بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونھا قربۃ علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت۔ [بدائع الصنائع]اس لیے اگر کسی شخص نے قربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی کے لیے جانور خریدا تھا اور وہ صاحبِ نصاب تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایامِ قربانی گزر گئے، تو اب ایک ایسی متوسط بکری کی قیمت صدقہ کرے جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔وان کان لم یوجب علی نفسہ ولا اشتری وھو موسر حتی مضت أیام النحر تصدق بقیمۃ شاۃ تجوز فی الأضحیۃ۔[بدائع الصنائع]

قربانی کی قضا میں صدقہ ہی کیوں؟

وقت گزر جانے کے بعد قضا نہ بہ مثل معقول ہے جیسے پنج گانہ نماز میں اور نہ بہ مثل غیرمعقول ہے جیسے روزے کی قضا فدیے سے، بلکہ وقت کا جو اصل فریضہ تھا یعنی ظہر اس کی قضا کی جاتی ہے، اسی طرح ایامِ نحر گزر جانے کے بعد قضا نہ بہ مثل معقول ہے اور نہ (علی الاطلاق) بہ مثل غیرمعقول، بلکہ غنا کی وجہ سے اصلاً جو حکم عائد ہوتا ہے یعنی تصدق، وہی حکم ذمّے میں باقی رہتا ہے۔ وقد تقرر ان القضاء قد یکون بمثل معقول کالصلاة للصلاة وقد یکون بمثل غیر معقول کالفدیة للصوم وثواب النفقة للحج وعدّوا الاضحیة من القسم الثانی وقالوا ان اداء ھا فی وقتھا باراقة الدم وقضاء ھا بعد مضی وقتھا بالتصدق بعینھا وبقیمتھا۔[تکملہ فتح الملہم]علامہ سرخسی کے بہ قول چوںکہ قربانی مخصوص دنوں میں مال ماجود ہونے پر واجب ہوئی تھی، اب وہ وقت باقی نہیں رہا، اس لیے اب مال ہی صدقہ کیا جائے گا۔وأما بعد مضي أیام النحر فقد سقط معنی التقرب بإراقۃ الدم، لأنھا لا تکون قربۃ إلا في مکان مخصوص وھو الحرم ، وفي زمان مخصوص وھو أیام النحر۔ ولکن یلزمہ التصدق بقیمۃ الأضحیۃ إذا کان ممن تجب علیہ الأضحیۃ، لأن تقربہ في أیام النحر کان باعتبار المالیۃ فیبقی بعد مضیھا والتقرب بالمال في غیر أیام النحر یکون بالتصدق، ولأنہ کان یتقرب بسببین : إراقۃ الدم والتصدق باللحم ، وقد عجز عن أحدھما ، وھو قادر علی الآخر فیأتي بما یقدر علیہ۔[مبسوط سرخسی]

بڑے جانور میں گذشتہ سالوں کی قربانی

گذشتہ سالوں کی نیت سے بڑے جانور میں حصہ لینے کے متعلق علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں: شرکا میں سے کسی ایک نے موجودہ سال کی قربانی کی نیت کی اور باقیوں نے گذشتہ سالوں کی، تو موجودہ سال والے کی نیت درست اور دیگر کی نیت باطل ہوگی اور ان کی قربانیاں نفل ہوں گی اور اُن سب پر اور اس اکیلے پر ( جس نے موجودہ سال کی نیت کی تھی) گوشت کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضی تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد۔[فتاویٰ شامی]

بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت بھی کافی

عام طور پر دیگر کتابوں [ فتاویٰ دینیہ، فتاویٰ قاسمیہ ، کتاب المسائل ] اور اسی طرح ’احسن الفتاویٰ‘ میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص پر قربانی واجب تھی اور اس نے غفلت یا کسی وجہ سے قربانی ادا نہیں کی، یہاں تک کہ قربانی کے دن گزر گئے، تو اب جانور کے ساتویں حصے کی قیمت کا صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا۔[احسن الفتاویٰ]لیکن سیدی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کے مطبوعہ فتاویٰ میں ’کفایت المفتی‘ اور ’فتاویٰ محمودیہ‘ کے حوالے سے مرقوم ہے کہ ہر سال کے بدلے ایک درمیانی قسم کی بھیڑ یا بکری کی کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، (لیکن) بڑے جانور کے ساتویں حصے یا اس کی قیمت سے بھی کام چل جائےگا۔[محمود الفتاویٰ مبوب] دارالعلوم دیوبند [آن لائن دارالافتا،سوال نمبر:55464]اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن[فتوی نمبر: 143701200016] میں بھی اس کی اجازت دی گئی ہے۔پہلی صورت میں احتیاط زیادہ ہے اور دوسری صورت میں وسعت۔

[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here