مسلمان دعا کر رہے ہیں، لیکن دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟

مولانا ندیم احمد انصاری

ایمان کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ہر چھوٹی بڑی حاجت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پیش کرے۔ بحمد اللہ اسی پر اہلِ ایمان کا عمل بھی ہے۔ لیکن بعض دفع مسلمان مل کر،رو رو کر، دعا کرتے ہیں،اور اس کے نتائج آنکھوں سے نظر نہیں آتے۔اِس وقت بھی حالات سے گھرےمسلمان اللہ کو پُکار رہے ہیں، لیکن کچھ اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ ایسے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہی نہیں ہوتی۔ ایسے موقعوں پر دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے؛ اول یہ کہ اگر خدا نہ خواستہ دعا واقعی قبول نہیں ہوئی، تب بھی دعا کرنا نہ چھوڑیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کون ہے، جو ہماری دعائیں سنے اور پوری کر ے؟ دوسرے یہ محاسبہ کریں کہ ہم کون کون سی کوتاہیوں کے مرتکب ہیں کہ ہماری دعائیں قبولیت سے محروم ہیں؟اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کی دعا سنتا اور قبول کرتا ہے اور خاص کر مظلوم کی۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو! ابن عباس کے غلام ابوسعید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں،حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ (بخاری)

قرآنی ارشادات

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(مفہوم) اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت کے دن تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے، اور جن کو ان کی پکار کی خبر تک نہیں ہے۔ (الاحقاف)ایک مقام پر ارشاد فرمایا:(مفہوم) اگر تم ان کو پکارو گے تو وہ تمھاری پکار سنیں گے ہی نہیں، اور اگر سن بھی لیں تو تمھیں کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ خود تمھارے شرک کی تردید کریں گے۔ اور جس ذات کو تمام باتوں کی مکمل خبر ہے، اس کے برابر تمہیں کوئی اور صحیح بات نہیں بتائے گا۔ (فاطر)ایک مقام پر فرمایا:(مفہوم) وہی ہے جس سے دعا کرنا برحق ہے۔ اور اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دیتے، البتہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ چاہے کہ پانی خود اس کے منھ تک پہنچ جائے، حالاں کہ وہ کبھی خود منھ تک نہیں پہنچ سکتا۔ (الرعد)

دعا کب قبول نہیں ہوتی ؟

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کی دعا مقبول ہوتی ہے، بہ شرط یہ کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے (اور یہ نہ کہے کہ) میں نے دعا کی، لیکن قبول نہ ہوئی۔(بخاری )

دعا کی قبولیت کی تین صورتیں

احادیث کے مطابق دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے؛ خواہ دنیا میں ہی اسے وہ چیز عطا کردی جائے، یا اسے اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ بنادیا جائے، یا پھر اس دعا کی وجہ سے اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔ شرط یہ ہے کہ اس کی دعا کسی گناہ یا قطع رحمی کے لیے نہ ہو اور وہ جلدی نہ کرے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جلدی سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ یہ کہے کہ میں نے اللہ سے دعا کی، لیکن اس نے قبول نہ کی۔(ترمذی) سننِ کبریٰ بیہقی کی روایت میں یہ بھی ہے: بندہ یہ کہے کہ میں نے بہت دعا کی، میں نے بہت دعا کی، مگر میری دعا قبول نہیں کی گئی، اس طرح وہ تھک جاتا ہے اور دعا کو چھوڑ دیتا ہے۔(سنن کبریٰ بیہقی)

ہر دعا پر نیکی

جن دعاؤں کا اثر آنکھوں سے نظر نہیں آتا، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی لکھی جاتی ہے۔ایک مرسل روایت میں ہے کہ بندہ جب دعا کرتا ہے اور (اس کا اثر نظر نہیں آتا اور اسے لگتا ہے کہ) وہ دعا قبول نہیں ہوئی، تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ (کنزالعمال)

دعا دل لگا کر مانگیں

دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ خوب دل لگا کر، اخلاص کے ساتھ، اور رو رو کر مانگی جائے۔ہمارا حال یہ ہے کہ دل کہیں ہوتا ہے، نظر کہیں ہوتی ہے اور زبان سے دعا کے الفاظ ادا کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لہو ولعب میں مشغول دل کی دعا قبول نہیں فرماتے۔(ترمذی)

حرام کی نحوست

دعا قبول نہ ہونے کی سب سے بڑی اور عام وجہ ، جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، حرام مال سے نہ بچنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیا ہے جس کا اپنے رسولوں کو حکم دیا اور فرمایا: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔اے پیغمبرو! تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، اس لیے کہ میں تمھارے اعمال کے متعلق جانتا ہوں۔ پھر مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ۔اے ایمان والو! ہماری عطا کی ہوئی چیزوں میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت نبی کریم ﷺ نے اس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، پریشان حال اور پراگندہ بال ہے، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے؛ اے رب! اے رب! حالاں کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، پہننا حرام، حرام مال سے اس کی پرورش ہوئی، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو!(ترمذی)یہاں مسافر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ سفر میں دعا قبول ہوتی ہے، اس کی برکت سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی دعا فوراً قبول ہوجاتی، لیکن حرام کی نحوست سے مسافر کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔

بڑا المیہ

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ صرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں عام ہو گئی ہیں، بلکہ اس سے روکنے والے اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جب کہ حضرت ابو الرقاد سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا میں غلام ہونے کی حالت میں اپنے آقا کے ساتھ نکلا۔ مجھے حضرت حذیفہ کے پاس لایا گیا، اس حال میں کہ وہ فرما رہے تھے: اگر کوئی آدمی وہ کلام حضرت نبی کریمﷺ کے زمانے میں کرتا تو منافق ہوجاتا اور بلاشبہ وہ کلام میں نے تم میں ہر ایک سے ایک ایک مجلس میں چار مرتبہ سنا ہے (وہ کلام یہ ہے کہ) ضرور بالضرور تم بھلائی کا حکم کرو اور ضرور بالضرور تم برائی سے روکو اور ضرور تم بھلائی پر رہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو عذاب کے ذریعے برباد کردے گا ،یا تمھارے شریروں کو تم پر حاکم بنا دے گا۔ پھر تمھارے اچھے لوگ دعا کریں گے، لیکن ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

دلوں کو اجاڑ ڈالا

ہماری حالت یہ ہے کہ ہماری زبان پر تو ایمان کے بول ہیں، لیکن دل ایمان کی حقیقت سے خالی ہیں۔ بنی اسرائل کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی تھی کہ تمھاری قوم نے مسجدیں تو بناڈالی ہیں، لیکن اپنے دلوں کو اجاڑ دیا ہے۔ وہ فربہ کیے جارہے ہیں جیسے کہ خنزیر ذبح کے دن فربہ کیا جاتا ہے۔ میں ان کی طرف نظر کرتا ہوں تو ان پر لعنت برساتا ہوں۔ میں ان کی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی مانگی ہوئی کوئی چیز انھیں دیتا ہوں۔ (کنزالعمال)

دعا کی قبولیت کی دعا

ان حالات میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی تمام نا فرمانیوں سے بچنے اور مسلسل دعائیں کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی قبولیت کی دعا کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺیہ دعا کیا کرتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لَا يُسْمَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ هَؤُلَائِ الْأَرْبَعِ ۔(اے اللہ میں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں خوفِ خدا نہ ہو، ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہو جو قبول نہ ہو، ایسے نفس سے پناہ مانگتا ہوں سیر نہ ہوتا ہو اور ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جس سے کوئی فایدہ نہ ہو۔ میں ان چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں)۔ (ترمذی)

بغیر درود شریف کے دعا

جب بھی دعا کریں، تمام آداب کا لحاظ رکھیں۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ دعا سے پہلے اور بعد میں درود شریف کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان اس وقت تک رُکی رہتی ہے، جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو!(ترمذی)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here