مسنون و ماثور دعاؤں میں منقول الفاظ کی حفاظت

مولانا ندیم احمد انصاری

وحی کی لغوی تعریف ہے؛الْإِعْلَام فِي خَفَاء:’پوشیدہ بات کی خبر دینا‘،اور اصطلاح میں هُوَ كَلَام اللہ الْمنزل على نَبِي من أنبيائه وَالرَّسُول:’ انبیاے کرام پر نازل ہو نے والے اللہ کے کلام کو وحی کہتے ہیں‘۔والوحي في الأصل: الإعلام في خفاء۔ قال الجوهري: الوحي: الكتاب، وجمعه وحي، مثل حلي وحلي۔۔۔ وفي اصطلاح الشريعة: هو كلام اللہ المنزل على نبي من أنبيائه والرسول۔ [عمدة القاری]

وحی کی دو قسمیں

آں حضرت ﷺپرجو وحی بھیجی گئی وہ دو قسم کی تھی؛ (۱)ایک تو قرآنِ حکیم جس کے الفاظ اورمعنی دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں یعنی جس طرح اس کے مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی بعینہٖ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ الفاظ کے انتخاب، یا اسلوب وانشا میں نہ حضرت جبریل ؈ کوکوئی دخل ہے نہ آں حضرت ﷺ کا؛ اسے ’وحیِ متلو‘ کہاجاتا ہے، یعنی ایسی وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے (۲)دوسری قسم وحی کی وہ ہے جو قرآن پاک کا جزبناکرنازل نہیں کی گئی، اس کے ذریعے آپ ﷺ کو بہت سی تعلیمات اور شریعت کے احکام اس طرح بتائے گئے ہیں کہ آپ کے قلبِ مبارک پر صرف معانی ومضامین کا القا ہوتا تھا ، الفاظ اس کے ساتھ نہ ہوتے تھے، ان معانی ومضامین کو آپ ﷺنے صحابہ کرامؓکے سامنے کبھی اپنے الفاظ سے، کبھی اپنے افعال سے اور کبھی دونوں سے بیان فرمایا، وحی کی اس قسم کا نام ’وحیِ غیرمتلو‘ ہے، یعنی ایسی وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی، اسی وحی کو حدیث اور سنت کہاجاتا ہے۔[امداد الاحکام]

ارشادِ ربّانی

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۝ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۝اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو خالص وحی ہے، جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ [النجم] یعنی کوئی کام تو کیا، ایک حرف بھی آپ کے دہنِ مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہشِ نفس پر مبنی ہو، بلکہ آپ ﷺ جو کچھ دین کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں، وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ اُس میں وحی متلوکو قرآن اور غیر متلو کو حدیث کہا جاتا ہے۔ [تفسیرِ عثمانی]

مسنون دعا و اذکار میں ترمیم

رسول اللہ ﷺ نے مسنون دعا و اذکار میں حروف کی کمی زیادتی اورترمیم سے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔ بَرا بن عازب ؄ نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم سونے لگو تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرو، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ اور یہ دعا پڑھو: أَللّٰهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. اس کے بعد اگر تمھیں موت آگئی تو فطرت (دینِ اسلام) پر مرو گے، اس لیےان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ، جنھیں تم اپنی زبان سے ادا کرو۔ (بَرا بن عازب ؄ کہتے ہیں) میں نے کہا: وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ؟ تو حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نہیں وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَکہو۔ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏ إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وَضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ وَقُلِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ مُتَّ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ فَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَسْتَذْكِرُهُنَّ وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.[بخاری] یعنی صحابی نے ’نبی‘ کی جگہ لفظ ’رسول‘ استعمال کیا تو آپ ﷺنے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا، جب کہ رسول بعض معنوں میں زیادہ اہم ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ماثورہ دعاؤں میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے، ان کو اسی طرح پڑھنا چاہیے جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں۔ [تحفة الالمعی] محققین کا کہنا ہے کہ مسنون دعاو اذکار میں کلمات وحروف توقیفی ہیں، کمی بیشی یا ترمیم جائز نہیں ہے۔ جن الفاظ اور صیغوں کے ساتھ وہ دعائیں اور اذکار وارد ہوئے ہیں، اُنھی الفاظ اور صیغوں کے ساتھ ان کا وِرد کرنا چاہیے۔[تحفة الأحوذی][صحيح مسلم بشرح النووي]

حضرت علقمہ ؄کی تنبیہ

حضرت ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ ؄ ایک دیہاتی کو تشہد (التحیات) کے کلمات سکھاتے ہوئے کہہ رہے تھے:السَّلاَمُ عَلَیْک أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ(ترجمہ: اے نبی آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت و برکت نازل ہو)۔ اور دیہاتی کہہ رہا تھا : السَّلاَمُ عَلَیْک أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ وَمَغْفِرَتُہُ(اے نبی! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو، اور مغفرت ہو)۔ اس پر حضرت علقمہ؄ نے فرمایا کہ ہمیں اسی طرح سکھایا گیا ہے۔ عَنْ إبْرَاھِیمَ ؛ کَانَ عَلْقَمَۃُ یُعَلِّمُ أَعْرَابِیًّا التَّشَھُّدَ، فَیَقُولُ عَلْقَمَۃُ : السَّلاَمُ عَلَیْک أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ (وَ یَقُول الاعرابیُّ السَّلاَمُ عَلَیْک أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ) وَمَغْفِرَتُہُ، فَیُعِیدُ الأَعْرَابِیُّ، فَقَالَ عَلْقَمَۃُ: ھَکَذَا عُلِّمْنَا۔[مصنف ابن ابی شیبہ]یعنی اعرابی نے تشہد میںوَمَغْفِرَتُہُکا اضافہ کیا تو حضرت علقمہ ؄ نے اس پر نکیر کی اور فرمایا ہمیں اس زیادتی کے بغیر سکھایا گیا ہے، (لہٰذا تم بھی اسی طرح پڑھو)۔
دعا میں بھی اعتدال ضروری

حضرت عبداللہ بن مغفل ؄نے اپنے صاحب زادے کو یہ دعا مانگتے ہوئےسنا:اے اللہ ! جب میں جنت میں جاؤں تو مجھے جنت کی دائیں جانب سفید محل عطا فرما! تو انھوں نے کہا : میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو(حد سے آگے نہ بڑھو)، کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : عنقریب کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے۔ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ،‏‏‏‏ سَمِعَ ابْنَهُ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ إِذَا دَخَلْتُهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْ بُنَيَّ! سَلِ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَعُذْ بِهِ مِنَ النَّارِ،‏‏‏‏ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ. [ابن ماجہ]اور ابوداود شریف میں ہے کہ عبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا: اے اللہ میں تجھ سے سفید محل مانگتا ہوں جنت کی داہنی طرف، جس وقت کہ میں جنت میں داخل ہوں، (تو حضرت عبداللہ؄ نے) کہا: اے بیٹے! اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو پاکی اور دعا میں مبالغہ کریں گے۔ اسلام نے ہر معاملے میں اعتدال کو پسند کیا ہے اور بےاعتدالی کو کسی بھی معاملے میں پسند نہیں کیا، حتی کہ پاکی اور دعا کے معاملے میں بھی نہیں۔ ‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْ بُنَيَّ، ‏‏‏‏‏‏سَلِ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَتَعَوَّذْ بِهِ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الطَّهُورِ وَالدُّعَاءِ.[ابوداود]
خلاصہ یہ کہ مسنون و ماثور دعاؤں میں کمی زیادتی یا ترمیم سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے ریشم میں ٹاٹ کا پیوند کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، کہاں کلامِ نبوت اور کہاں یہ گندی زبان! پاسنگ میں جب ایک طرف قیمتی موتی اور ہیرے جواہرات ہوں تو دوسری طرف خس و خاشاک رکھنا، چہ معنی؟ علاوہ ازیں اس سے من گھڑت اضافوں اور بے اعتدالی کا دروازہ کھلتا ہے۔

[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here