وَقف اور اس کا ذکر قرآن و حدیث میں

مولانا ندیم احمد انصاری
‘ڈیرکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

وقف ایک عظیم عبادت ہے، اس کے ذریعے مسلمانوں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر اور اس کی محبت میں کسی چیز کو اپنی مِلک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کر دینے کو “وقف” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وقف کی ہوئی اشیا واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہیں۔وقف ہونے کے بعد ان اشیا میں تصرف کا اختیار اس شخص کو ہوتا ہےجو متولی اور نگراں بنایا گیا ہو۔ اس کی ذمّے داری ہے کہ وہ وقف املاک کا پورا خیال رکھے۔ ارشادِ ربانی ہے: فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَلْیَتَّقِ ﷲِ رَبَّهٗoپھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہیے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے۔[البقرہ]ایک مقام پر فرمایا:یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اﷲِ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰـنٰـتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول ﷺ سے (ان حقوق کی ادایگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالاں کہ تم (سب حقیقت) جانتے ہو۔ [الانفال]اس کے باوجود آج وقف املاک کا جو حال ہے وہ جگ ظاہر ہے۔

وقف کی مشروعیت

جمہور فقہا کا مذہب ہے کہ وقف مشروع ہے اور اس کا شمار مستحب عبادات میں ہے۔ذَهَبَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ إِلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْوَقْفِ وَلُزُومِهِ وَاعْتِبَارِهِ مِنَ الْقُرَبِ الْمَنْدُوبِ إِلَيْهَا۔[الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ] حضرت جابر ؄نے کہا: میرے علم میں مہاجرین اور انصار میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے، جس کے پاس مال ہو اور اس نے (کچھ) مال ہمیشہ کے لیے صدقہ کر کے وقف نہ کیا ہو، جسے نہ کبھی خریدا جائے گا نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی۔وَقَالَ جَابِرٌ : مَا أَعْلَمُ أَحَدًا كَانَ لَهُ مَالٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ إِلاَّ حَبَسَ مَالاً مِنْ صَدَقَةٍ مُؤَبَّدَةٍ لاَ تُشْتَرَى أَبَدًا وَلاَ تُوهَبُ وَلاَ تُورثُ. [ایضاً]علامہ ابن قدامہ  فرماتے ہیں : یہ صحابہ  کی طرف سے اجماع ہے ، اس لیے کہ ان میں سے جو وقف پر قادر تھا اس نے وقف کیا اور اس کی شہرت ہو گئی، کسی نے نکیر نہیں کی، لہٰذیہ اجماع ہوا۔وَقَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: وَهَذَا إِجْمَاعٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فَإِنَّ الَّذِي قَدَرَ مِنْهُمْ عَلَى الْوَقْفِ وَقَفَ وَاشْتَهَرَ ذَلِكِ فَلَمْ يُنْكِرْهُ أَحَدٌ فَكَانَ إِجْمَاعًا. [ایضاً] علامہ ابن رشد فرماتے ہیں: احباس ( اوقاف ) ایک دائمی طریقہ ہے، جس پر حضرت نبی کریمﷺ اور آپ کے بعد مسلمانوں نے عمل کیا۔وقَالَ ابْنُ رُشْدٍ: الأَحْبَاسُ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ عَمِلَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺوَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ. [ایضاً]

وقف کاشرعی حکم

وقف میں اصل یہ ہے کہ وہ مستحب عبادات میں سے ہے اور بعض معین حالات میں بھی اس کو دوسرے احکام بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ کبھی وقف فرض ہوجاتا ہے؛ اور یہ نذر مانا ہوا وقف ہے، جیسے کوئی کہے : اگر میرالڑکا آجائے گا تو میرے اوپر لازم ہوگا کہ اس گھر کو مسافر کے لیے وقف کر دوں۔ وقف کبھی مباح ہوتا ہے، جب کہ وہ قربت کی نیت کے بغیر ہو، اسی لیے وہ ذمّی کی طرف سے صحیح ہوتا ہے،اور اس کو کوئی ثواب نہیں ملتا۔ اور کبھی قربت ہوتا ہے، جب کہ مسلمان کی جانب سے ہو۔ کبھی وقف حرام ہوتا ہے، جیسے کوئی مسلمان کسی معصیت پر وقف کرے، جیسے کسی گرجا پر وقف کرنا۔ الأَصْلُ فِي الْوَقْفِ أَنَّهُ مِنَ الْقُرَبِ الْمَنْدُوبِ إِلَيْهَا، وَقَدْ تَعْتَرِيهِ أَحْكَامٌ أُخْرَى فِي حَالاَتٍ مُعَيَّنَةٍ: فَقَدْ يَكُونُ الْوَقْفُ فَرْضًا وَهُوَ الْوَقْفُ الْمَنْذُورُ كَمَا لَوْ قَالَ: إِنْ قَدِمَ وَلَدِي فَعَلَيَّ أَنْ أَقِفَ هَذِهِ الدَّارَ عَلىَ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقَدْ يَكُونُ مُبَاحًا إِذَا كَانَ بِلاَ قَصْدِ الْقُرْبَةِ، وَلِذَا يَصِحُّ مِنَ الذِّمِّيِّ وَلاَ ثَوَابَ لَهُ، وَيَكُونُ قُرْبَةً إِذَا كَانَ مِنَ الْمُسْلِمِ. وَقَدْ يَكُونُ الْوَقْفُ حَرَامًا كَمَا لَوْ وَقَفَ مُسْلِمٌ عَلَى مَعْصِيَةٍ كَوَقْفِهِ عَلَى كَنِيسَةٍ. [الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ]

وقف کا ذکر احادیث میں

بخاری شریف میں باب ہے:بَابُ: إِذَا قَالَ دَارِي صَدَقَةٌ لِلَّهِ وَلَمْ يُبَيِّنْ لِلْفُقَرَاءِ أَوْ غَيْرِهِمْ. فَهُوَ جَائِزٌ، وَيَضَعُهَا فِي الأَقْرَبِينَ أَوْ حَيْثُ أَرَادَ۔ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَبِي طَلْحَةَ حِينَ قَالَ أَحَبُّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، فَأَجَازَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ يَجُوزُ حَتَّى يُبَيِّنَ لِمَنْ وَالأَوَّلُ أَصَحُّ. جب ابوطلحہ ؄ نے کہا کہ میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ “بیرحاء” کا باغ ہے اور وہ اللہ کے راستے میں صدقہ ہے تو حضرت نبی کریم ﷺنے اسے جائز قرار دیا تھا، لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ جب تک یہ نہ بیان کر دے کہ صدقہ کس لیے ہے، جائز نہیں ہوگا، اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [بخاری]حضرت انس ؄سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے مسجد بناتے وقت فرمایا تھا کہ اے بنی نجار! تم اپنا باغ میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ تو ان لوگوں نے عرض کیا:ہم تو اس کی قیمت اللہ ہی سے چاہتے ہیں۔‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ.[بخاری]

رسول اللہ ﷺکا وقف

حضرت عمرو بن حارث ؄ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے نہ دینار چھوڑے نہ درہم، غلام نہ باندی، صرف ایک خچر چھوڑاتھا جس پر آپ ﷺ سواری فرمایا کرتے تھے، اور کچھ تھوڑی سی زمین،جسے آپ ﷺنے اپنی حیات میں مسافروں کی ضرورت کے لیے وقف کردیا تھا۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَبْدًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَمَةً إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ الَّتِي كَانَ يَرْكَبُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَسِلَاحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا لِابْنِ السَّبِيلِ صَدَقَةً. [بخاری]

حضرت عمر ؄کا وقف

حضرت ابن عمر ؆سے روایت ہے؛ حضرت عمر کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے خیبر میں ایسا مال ملا ہے کہ اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی، اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل اپنے پاس رہنے دو اور اس کے نفع کو صدقہ کردو۔ پس حضرت عمر نے وہ زمین صدقہ کردی، اس طرح کہ نہ بیچی جاسکے اور نہ ہبہ کی جاسکے اور نہ وراثت میں دی جاسکے، اس سے فقرا، اقربا، غلاموں کو آزاد کرنے، اللہ کی راہ اور مہمانوں وغیرہ پر خرچ کیا جاتا تھا، اس کے متولی پر عرف کے مطابق اس کا استعمال کرنا جائز تھا، اسی طرح وہ اپنے کسی دوست وغیرہ کو بھی کھلا سکتا تھا۔عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ،‏‏‏‏ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ،‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا،‏‏‏‏ وَتَصَدَّقْتَ بِهَا،‏‏‏‏ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ،‏‏‏‏ أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا،‏‏‏‏ وَلَا يُوهَبُ،‏‏‏‏ وَلَا يُورَثُ،‏‏‏‏ تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ،‏‏‏‏ وَالْقُرْبَى،‏‏‏‏ وَالرِّقَابِ،‏‏‏‏ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَابْنِ السَّبِيلِ،‏‏‏‏ وَالضَّيْفِ،‏‏‏‏ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ۔[ترمذی]

حضرت عثمان ؄ کا وقف

حضرت ابوعبدالرحمن سلمی ؄ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان ؄ محصور ہوئے تو اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں سے فرمایا: میں تمھیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ وقت یاد کرو جب حرا کا پہاڑ ہلا تھا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا تھا کہ رک جا،تجھ پر نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔ لوگ کہنے لگے: ہاں۔ پھر آپ ؄ نے فرمایا: میں تمھیں یاد دلاتا ہوں: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺنے غزوہ تبوک کے موقع پر فرمایاتھا کہ کون ہے جو اس تنگی اور مشقت کی حالت میں خرچ کرے، اس کا (صدقہ) قبول کیا جائے گا، چناں چہ میں نے اس لشکر کو تیار کرایا۔ لوگ کہنے لگے: ہاں۔ پھرحضرت عثمان ؄ نے فرمایا: اللہ کے لیے میں تمھیں یاد دلاتا ہوں کہ کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ رومہ کہ کنوئیں سے کوئی شخص بغیر قیمت ادا کیے پانی نہیں پی سکتا تھا اور میں نے اسے خرید کر امیرو غریب اور مسافروں کے لیے وقف کردیا تھا۔ لوگ کہنے لگے :اے اللہ ہم جانتے ہیں! پھر آپ ؄ نے بہت سی باتیں گنوائیں۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ حِرَاءَ حِينَ انْتَفَضَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ،‏‏‏‏ أَوْ صِدِّيقٌ،‏‏‏‏ أَوْ شَهِيدٌ “، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ:‏‏ مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً وَالنَّاسُ مُجْهَدُونَ مُعْسِرُونَ فَجَهَّزْتُ ذَلِكَ الْجَيْشَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ بِئْرَ رُومَةَ لَمْ يَكُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا،‏‏‏‏ فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ،‏‏‏‏ وَالْفَقِيرِ،‏‏‏‏ وَابْنِ السَّبِيلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْيَاءَ عَدَّدَهَا.[ترمذی]

مرحومین کی طرف سے وقف

حضرت ابن عباس ؆ سے روایت ہے، حضرت سعد بن عبادہ ؄ کی عدم موجودگی میں ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ انھوں نے کہا : اےاللہ کے رسولﷺ! میری عدم موجودگی میں میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، اگر میں کوئی چیز ان کی طرف سے صدقہ کروں تو وہ انھیں نفع پہنچائے گی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (ضرور)۔ حضرت سعد نے کہا : میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا پھل دارباغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔أَخْبَرَنِي يَعْلَى ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا. [بخاری]
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here