اسلام انسانیت کے ناطے سب کا خیال رکھتا ہے

مولانا ندیم احمد انصاری
آئے دن اسلام اور اہلِ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے اور اسلام جن کریمانہ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، انھیںیک سر بھُلا دیا جاتا ہے، یا پردۂ خفا میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جاتاہے۔
دینِ اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے اس لیے اس کی تعلیمات فطرت کے عین مطابق وموافق ہیں۔ اسلام نہ تو اپنے پیروکاروں پر اتنی سختی کا قائل ہے کہ ہر چیز کو حرام قرار دے کر انھیں دنیا سے کنارہ کش کردے اور نہ ہی ایسی آزادی کا عَلم بردار کہ انسان کو تمام تر قیود سے اس طرح بری الذمّہ کردے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔
اسلام کُل انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک ورواداری کا پیغام دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثیٰ۔اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد (باپ) اور ایک عورت (ماں) سے پیدا کیا ہے۔ [الحجرات:۱۳]یعنی اس کائنات میں بسنے والے تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ عرب میں رہنے والا ہو یا عجم میں، شہر میں رہنے و الا ہو یا دیہات میں، بنگلے میں رہنے والا ہو یا جھونپڑی میں۔ خواہ کسی نسل وخاندان سے تعلق رکھنے والا ہو اور کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو۔ گورا ہو یا کالا، سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ بھائی بھی کیسے؟ ایسے کہ ان کی ماں بھی ایک ہے اور باپ بھی ایک۔
اسلام نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل ’انسانیت نواز‘ تعلیمات کو عام کیا، جب کہ انسان، انسان کے خون کا پیاسا تھا۔ افسوس صد افسوس! موجودہ زمانے میں اس سلسلے میں نت نئی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیںاور اسلام دشمن پروپیگنڈے بڑا واویلا کررہے ہیں کہ اسلام نفرت ودشمنی کی تبلیغ کرنے والا دین ہے! اس کی کتاب ’قرآنِ کریم‘ امنِ عالم کے لیے خطرہ ہے! جب تک وہ دنیا میں موجود ہے، دنیا امن سے محروم رہے گی! انھوں نے اپنے اس پروپیگنڈے کی ترویج واشاعت کے لیے قرآن مجید کی بعض آیات کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور حقیقت سے ناواقف لوگوں کے لیے تلبیس کا سامان کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی اس پروپیگنڈے کے تلاطم خیز سمندر کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ خود مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد اس سلسلے میں بعض غلط فہمیوں اور غلو آمیز تصورات کا شکار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ علمِ صحیح کے ذریعے ان تلبیسات کا پردہ چاک کیا جائے اور غلط فہمیوں اور غلو آمیز نظریات کی بنیاد شکنی کی جائے۔
یہ درست ہے کہ اسلام کی یہ تاکید ہے کہ مسلمان اپنے دینی مزاج وخصوصیات اور اخلاقی صفات میں غیر مسلموں سے واضح طور پر ممتاز رہیں۔ ان کی نقالی سے پرہیز کریں اور خاص طور پر ان کی مذہبی نشانیوں اور رسومات سے اجتناب کریں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ہر ذی روح کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کرتا ہے اور انسان تو کجا، جانوروں تک سے سنگ دلانہ برتائو کو ناپسند کرتا ہے۔
رحمتِ عالم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ایک عورت کو اس وجہ سے آگ میں داخل کردیا گیا کہ اس نے ایک بلّی کو باندھ رکھا تھا، نہ خود اسے کچھ کھلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنا پیٹ بھرلے۔ [بخاری: ۲۳۶۵، مسلم: ۲۲] ایک حدیث میں ہے کہ ایک گدھا آپ ﷺ کے سامنے سے گزرا۔ اس کے چہرے پر داغ دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے جو جانورکے چہرے پر داغ دے یا اس کے چہرے پر مارے؟ [ابوداود: ۲۵۶۴]ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے تیر اندازی سیکھنے کے لیے مرغی کو ہدف بنایا ہےتو آپ رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: حضرت نبی کریم ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، جو کسی ذی روح کو ہدف بنائے۔ [بخاری: ۵۵۱۵]نیز آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایک شخص نے ایک کتے کو دیکھا، جو شدتِ پیاس کی وجہ سے سے بے دم ہورہا تھا۔وہ کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی لاکر اس کتے کو پلایا۔ یہاں تک کہ وہ کتّا سیراب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس شخص کی اس خدمت کی قدر کی اور اس کی مغفرت فرمادی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: فی کل کبد رطبۃ اجر یعنی ہر جان دار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا باعثِ اجر ہے۔[بخاری: ۲۳۶۳، مسلم: ۲۲۴۴]
مقامِ غور ہے کہ جس اسلام کی جانوروں تک پر اس درجے عنایات ہیں، ایسے مذہب میں انسانیت کا کیا مقام ومرتبہ ہوگا!اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔فتنہ وفساد پھیلانا اللہ کے نزدیک قتل سے بڑا گناہ ہے۔[البقرۃ: ۱۹۱]ایک مقام پر فرمایا: جو شخص کسی دوسرے شخص کو بلا معاوضہ یا بدون کسی فساد کے (جو زمین پر اس نے پھیلایا ہو) قتل کرڈالے،تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کرڈالا۔ [المائدۃ: ۳۲]یعنی (اسلامی ریاست میں بھی) کسی انسان کا قتل دو ہی صورتوں میں جائز قرار دیا گیا ہے؛ یا تو اس نے بھی کسی انسان کا قتل کیا ہو یا ایسا فساد پھیلایا ہو جس کی سزا قتل ہے۔
حدیث پاک – جو کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے- میں فرمایا گیا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی اس شخص پر رحم نہیں فرماتے، جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔[ادب المفرد: ۱۰۵] رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں بہتر دوست اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا ہو اور اللہ کے نزدیک بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔[ترمذی: ۱۹۴۴] ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانیوں سے (نہ صرف محفوظ بلکہ) مامون نہ ہو۔[مسلم: ۷۳]ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟ [بخاری: ۱۳۱۲]
ان احادیث میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں، البتہ فنّی امور؛ جو کہ دین سے متعلق نہیں، مثلاً صنعت، زراعت وطباعت وغیرہ، ان میں غیر مسلموں سے تعاون حاصل کرنا جائز ہے، اگرچہ اہلِ اسلام کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ ان تمام امور میں خود کفیل ہوں۔سیرتِ نبوی ﷺ کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے موقع پر ایک مشرک عبداللہ بن اریقط کی خدمات رہبرِ راہ کی حیثیت سے قبول فرمائی تھیں ۔[بخاری: ۳۹۰۵]جب کہ آپ ﷺ کی ہجرت کا مرحلہ نہایت ہی نازک ترین تھا۔
معلوم ہوا؛ اسلام انسانیت کے ناطے سب کا خیال رکھتا ہے اور اگر کوئی ہمارا پڑوسی ہے یا اس سے اور کوئی تعلق بھی ہے، تو وہ مزید توجہات کا مستحق ہے۔ اسلام کی نظر میں ہر انسان قابلِ احترام ہے اور ہر ایک کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ آئیے ہم اسلامی تعلیمات کو عام کریں اور اپنے وطن بلکہ دنیا سے نفرتوں کو مٹاکر راہِ ہدایت آسان کریں۔
[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here