اعتکاف کی فضیلت اور ہماری بے رغبتی
ندیم احمد انصاری
اعتکاف عکف سے بابِ افتعال کا مصدر ہے، جس کے لغوی معنی ہیں ایک جگہ پابند ہو کر ٹھیرے رہنا۔ شرعی اصطلاح میں عبادت کی ایک شکل، جس کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مومن کچھ مدت کے لیے دنیا سے علیحدگی اختیار کرکے مسجد میں بیٹھ جاتا ہے۔ اعتکاف ایک مستحسن فعل (سنت) ہےاور اس کا شمار ان نیک اعمال میں ہوتاہے جن کا ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر بجا لانا کتبِ شرعیہ میں مستحسن قرار دیا گیا ہے، تاکہ انسان لیلۃ القدر کی برکات سے بہرہ یاب ہو سکے۔ حدیثِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرتﷺ خود بھی ماہِ رمضان کا آخری تیسرا حصہ مدینے کی مسجد میں بہ حالتِ صوم گذارا کرتے تھے۔ (اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ،بتغیر)
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اعتکاف کا بہت زیادہ ثواب ہے اور اس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریمﷺ ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ کسی کے در پر جا پڑے کہ اتنے میری درخواست قبول نہ ہو، ہٹنے کا نہیں؎
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اگر حقیقۃً یہی حال ہو تو سخت سے سخت دل والا بھی پسیجتا ہے اور اللہ جل شانہ کی کریم ذات تو بخشش کے لیے بہانہ ڈھونڈتی ہے، بلکہ بے بہانہ مرحمت فرماتے ہیں؎
تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے
در تیری رحمت کے ہیں ہر دم کھلے
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
اس لیے جب کوئی شخص اللہ کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہو کر جا پڑے، تو اس کے نوازے جانے میں کیا تامل ہو سکتا ہے اور اللہ جل شانہ جس کا اکرام فرما دیں، اس کے بھرپور خزانوں کا بیان کون کر سکتا ہے۔ (فضائلِ رمضان)
اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد میںاعتکاف کی نیت کر کے ٹھیر جائے اور بلا ضرورتِ شدیدہ مسجد سے نہ نکلے، اعتکاف پر جو ثواب کا وعدہ ہے وہ ہر حالت میں مل جائے گا، خواہ مسجد میں سوتا ہی رہے۔ یہ کیسی عجیب عبادت ہے! اس کی عقلی وجہ یہ ہے کہ مسجد کی حقیقت دربارِ خداوندی اور آستانۂ شاہی کی ہے، اسی واسطے مسجدوں کے آداب میں ہے کہ بازاروں کی طرح ان میں آوازیں بلند نہ کی جائیں، طہارت اور صفائی کو لازم سمجھیں، تو اب اعتکاف کی حقیقت دربارِ خداوندی میں پڑا رہنا ہوا، اور ظاہر ہے کہ اگر کسی دنیا دار انسان کے دروازے پر کوئی پڑا رہے تو وہ بھی آخر اس کو روٹی دے دیتا ہے کہ میرے دروازے پر پڑا ہوا ہے، حق تعالیٰ تو ارحم الراحمین ہیں وہ ایسے شخص پر کیوں نہ عنایت فرمائیں گے! (الفضائل والاحکام للشہور والایام)
اس کے علاوہ اعتکاف کی فضیلت میں بہت سی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں، مشتِ از خروارے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے، جب وہ سال آیا جس میں آپﷺکی وفات ہوئی تو آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔ (بخاری) حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ رمضان کے اخیرعشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، ایک سال آپﷺ (کسی عذر کی وجہ سے) اعتکاف نہیں کرسکے، تو اگلے سال آپ نے بیس راتوں کا اعتکاف فرمایا۔ (ابوداود )وہ عذر کیا تھا، اس کے متعلق بھی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے اس طرح مروی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا ہمیشہ اعتکاف فرماتے تھے، ایک سال آپ نے سفر کیا تو اس سے اگلے سال بیس روز اعتکاف فرمایا۔(ابن ماجہ ، ابوداود)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی (اپنے گھروں میں)اعتکاف کرتی تھیں۔(بخاری، مسلم)
ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا، اس عرصے میں جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے یعنی شبِ قدر، اس عشرے کے آگے ہے، لہٰذا آپ نے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرمایا اور ہم نے بھی آپ کے ہم راہ اعتکاف کیا، پھر جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے وہ اس عشرے کے آگے ہے، پس بیسویں رمضان کی صبح کو آپ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور فرمایا : جسن نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ اعتکاف کرے، کیوں کہ میں نے شبِ قدر کو دیکھ لیا لیکن میں اسے بھول گیا اور اب صرف اتنا یاد ہے کہ وہ آخری عشرے میں طاق رات ہے اور میں نے خواب میں یہ دیکھا کہ گویا میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں، اس وقت تک مسجد کی چھت چھوہارے کی شاخ سے بنی تھی اور اس وقت ہم آسمان میں کوئی چیز ابر وغیرہ نہ دیکھتے تھے، اتنے میں ایک ٹکڑا بادل کا آیا اور ہم پر پانی برسا، نبی کریمﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ میں نے گیلی مٹی کا نشان رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر دیکھا، یہ آپﷺ کے خواب کی تصدیق تھی۔ (بخاری ، مسلم) نیز رسول اﷲﷺنے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا :وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنے والے کی مثل (بغیر کیے بھی) پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔(ابن ماجہ) ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اﷲ کی رضا کے لیے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔(طبرانی اوسط، شعب الایمان) ایک مشہور حدیث میں ہے کہ رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کرنے کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے۔(شعب الایمان)ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے ایمان و ثواب کی امید کے ساتھ اعتکاف کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔(الجامع الصغیر)
یہ چند احادیث تلاش بسیار کے نتیجے میں سپردِ قلم کر دی گئیں، بڑے افسوس کی بات ہے کہ اتنی عظیم الشان فضیلتوں والی عبادت یعنی اعتکاف سے ہمارے معاشرے میں بے رغبتی عام ہوتی جا رہی ہے۔ماہِ مبارک میں اکثر مسلمان جس طرح تراویح اور تلاوتِ قرآن وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں، اس طرح اعتکاف کا اہتمام نہیں کرتے، اس لیے کہ بعض علاقوں میں تو اس عظیم الشان عبادت کو بڑے بوڑھوں سے متعلق سمجھ لیا گیا ہے،جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اکثر افراد کے لیے ایک جگہ بیٹھے رہنا اور وہ بھی مسجد میں خاصا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دنیا سے کسی نہ کسی حد تک لاتعلقی لازمی ہے، اس پر خواہ مغفرت کی قوی امید ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتکاف کے دنوں میں عید کا بازار پورے شباب پر ہوتا ہے، جسے قربان کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہ توفیق ہر ایک کو میسر نہیں آتی! افسوس صد افسوس کہ پیارے حبیب ﷺ کی ایسی عظیم سنت سے صرفِ نظر کرکے دنیا کی ان حقیر اشیا پر فریفتہ ہوتے ہیں،اگر ایسا نہیں تو کیا بات ہے کہ ایک ہزارمسلمان مَردوں کی آبادی والی مسجد میں دس فی صد یعنی سو، بلکہ ایک فی صد یعنی فقط دس افراد بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھتے۔تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے دھندے کا سیزن ہوتا ہے، کالج وغیرہ کے طلبہ چھٹی نہ ہونے کا عذر کرتے ہیں اور نوکری پیشہ افراد تو بے چارے کہاں سے دس دن مسجدوں میں بیٹھ سکتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ یہی لوگ موسم کے سہانا ہونے پر کام کاج سے رخصت لے کر ہِل اسٹیشنوں پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ یا للعجب!
اس بے رغبتی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں اس نبوی سنت کو ادا کرنے والا ایک بھی مَرد نہیں ہوتا اور دوسرے علاقے سے کسی کو اجرت پر لاکر بٹھانے کی نوبت آتی ہے۔ جب کہ علما نے صراحتاً لکھا ہے کہ اجرت دے کر اعتکاف کرانا جائز نہیں کیوں کہ عبادات کے لیے اجرت دینا اورلینا دونوں ناجائز ہے، کما ہو مبسوط فی الشامی۔۔۔فی الجنائز والاجارات۔ اگر بدون ٹھیرائے اجرت کے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کرا کے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے، بلکہ یہ امر بالمعروف میں داخل ہوگا۔ (فتاویٰ دارالعلوم) اہلِ محلّہ کو چاہیے کہ خود ہی اعتکاف کریں، دوسرے محلّے سے بلا کر اعتکاف کرا کے خود محروم نہ رہیں۔(فتاویٰ محمودیہ) لیکن عوام کا حال یہ ہے کہ وہ حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں جس کی دین زنجیری اعتکاف ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اکیس رمضان سے شوال کے چاند دیکھنے تک ایک ہی شخص کے بیٹھنے کے بجائے کئی احباب یکے بعد دیگرے زنجیری طور پر بیٹھیں ،جس کی اصلاح کرتے ہوئے علما کولکھنا پڑتا ہے کہ اعتکافِ سنت یہ ہے کہ ایک ہی شخص بیس رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور ہلال عید طلوع ہونے تک اعتکاف کی حالت میں رہے ،مختلف دنوں میں مختلف لوگ بیٹھیں تویہ اعتکاف نفل ہوگا، اس سے اعتکافِ سنت ادا نہیں ہوگا اور اہلِ محلہ پر اس کی ذمّے داری باقی رہے گی ۔(کتاب الفتاویٰ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے اور اپنے حبیب کی سنتوں کا متبع و عاشق بنائے۔ آمین