شب قدر، رسول اللہ ﷺ اور ہمارا معاشرہ

شبِ قدر، رسول اللہﷺ اور ہمارا معاشرہ
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
عن عائشة؅ قالت:كَانَ رسول اللہﷺ إِذَادَخَلَ العَشْرُ الأَوَاخِرُمِنْ رَمَضَانَ ، أحْيَا اللَّيْلَ ، وَأيْقَظَ أهْلَهُ ، وَجَدَّ وَشَدَّ المِئزَرَ۔(ریاض الصالحین:۱۱۹۳)
حضرت عائشہ ؅فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺکاحال یہ تھا کہ جب رمضان کاآخری عشرہ آتا تھاتوآپ رات بھرعبادت میں مشغول رہتے تھے،اوراپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔آپ ﷺ خودبھی خوب جدّ جہد اورمحنت سے کام لیتے تھے ،اورآپ ﷺ ازار باندھ لیاکرتےتھے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ آدمی کواس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ بہت سے حضرات اپنے طورپر تواس کااہتمام کرتے ہیں لیکن اپنے گھروالوں پرتوجہ نہیں کرتے،اگرچہ ان کو پوری رات نہ جگائے، لیکن ترغیب دے کر کچھ نہ کچھ اعمال کروانے کی عادت ڈالنی چاہیے، دھیرے دھیرے عادت پڑجائے گی۔ ’’وَشَدَّ الْمِئْزَرَ‘‘یعنی کسی کام کے لیے کمر باندھ لینااور بالکل تیّار ہوجانا۔
حضور اکرم ﷺکا طرزِعمل
وعنها؅ قالت : كَانَ رسولُ اللهِﷺ يَجْتَهِدُ في رَمَضَانَ مَا لاَيَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ ، وَفِي العَشْرِ الأوَاخِرِ مِنْهُ مَا لا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ۔ (ریاض الصالحین:۱۱۹۴)
حضرت عائشہ؅ فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺرمضان کے مہینہ میں عبادت وغیرہ میںاتنی مشقت اٹھاتے تھے کہ رمضان کے علاوہ میں اتنی نہیںاٹھاتے تھے، اور رمضان کے آخری عشرہ میںتو اتنی زیادہ جواورکسی دن میں نہیں ہوا کرتی تھی۔
جیساکہ اوپر بتلایاتھا، رمضان المبارک کامہینہ خاص طورپر وصول کرنے اور اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کامہینہ ہے۔ اس لیے آ دمی کوخاص طورپر عبادت کی مشقت اُٹھانی چاہئے اوراس میں بھی آخری دس راتوںمیںتو اورزیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
شب ِقدرکی خاص دعا
وعنها؅ قالت : قُلْتُ : يَا رسول الله ، أرَأيْتَ إنْ عَلِمْتُ أيُّ لَيلَةٍ لَيْلَةُ القَدْرِ مَا أقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ : قُولِي : اللَّهُمَّ إنَّكَ عَفُوٌ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنّي۔(ریاض الصالحین:۱۱۹۵)
حضرت عائشہ؅ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! بتلائیے کہ اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ کونسی رات شب ِ قدر ہے؛ تومیں اس میں (خاص طورپر) کون سی دعا مانگوں؟حضوراکرمﷺنےفرمایا :یہ دعامانگو:’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ اے اللہ! تومعاف کرنے والا ہے،معافی کوپسند کرتا ہے ؛لہٰذامیرے گناہوں کومعاف کردے۔
قربان جائیے حضراتِ صحابۂ کرام پر! کہ مبارک راتوں میں کیامانگنا چاہئے وہ بھی انھوں نے حضور اقدس ﷺسےپوچھ لیااور حضوراکرمﷺ نے وہ بتلادیا ؛پھربھی ہم اس کااہتمام نہیں کرتے۔ ہم تواپنے طورپر اپنے دماغ میں جن چیزوں کو لیے بیٹھے ہیں ؛انھیںکومانگتے رہتے ہیں، حضوراکرمﷺ نےجن چیزوں کی تاکید فرمائی ہےاور جن چیزوں کی تعلیم دی ہے؛اُدھرہمارا کبھی خیال بھی نہیں جاتا۔اس دعاکے ذریعہ اتنی بڑی چیزمنگوائی گئی ہے کہ اگروہ مل جائے تودونوں جہاںکی کامیابی مل گئی﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ﴾جوآدمی جہنم سے دور کردیاگیا اورجنّت میں داخل کیاگیا تووہی ہے حقیقی کامیاب ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگرمغفرت کاپروانہ مل جائے، گناہوں سے معافی دیدی جائے؛ تویہ سب سے بڑی کامیابی کی چیز ہے ۔ حقیقت تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا پروانہ مل جانا؛یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اس لیے مغفرت کے طلب کرنے کاخاص اہتمام کرنا چاہیے۔
ہم لوگوں کابھی عجیب مزاج بناہواہےکہ ہم اپنی دنیا کی اِدھر اُدھر کی ساری چیزیں مانگتے رہتے ہیں، لیکن بھولے سے بھی مغفرت مانگنے کی طرف دھیان نہیں جاتا، ہماری نگاہوں میں بس مانگنے کےلیے بھی دنیا ہی کی چیزیں ہیں، آخرت کی نعمتیں اور حضور اکرم ﷺنےجوچیزیں مانگ کر بتلائی ہیں ان کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے ۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here