ندیم احمد انصاری
مانگ کر
ننھے راجو کو ماں نے سبزی لانے کے لیے پیسے دیے ۔وہ ابھی زیادہ دور نہیں پہنچا تھا، گلی میں ہی نظر آرہا تھا۔ ماں نے دروازے پر کھڑے ہو کر پکار کر کہا:پانچ روپے کا ہرا مسالا لانا۔ کڑھی پتہ انکل سے مانگ کر لانا۔
نمازِ عید
مسجد کے امام صاحب نے رویتِ ہلال کا فیصلہ آنے کے کچھ دیر بعد زید کو فون کرکے پوچھا:عید کی نماز واجب ہے یا فرض ؟ زید فقہ کا طالبِ علم تھا، اس نے فوراًکہا: مولانا عید کی نماز تو واجب ہے !امام صاحب بولے : مجھے تو معلوم ہے ، لیکن حافظ عمران کا فون آیا تھا، وہ کہیں عید کی نماز پڑھانے والے ہیں، وہ کنفیوز تھے کہ واجب ہے یا فرض!
ہلکی سی ہنسی
زین نے گھر والوں کے ساتھ باہر جانے کا پلان بنا کر گاڑی بک کی اور ڈرائیور کو فون پر لوکیشن سمجھایا اور پوچھا: آپ کہاں پے ہو؟ڈرائیوربولا:جہاں ایک مارکیٹ ہے نا، میں بس وہیں ہوں۔(زین کو اس کا یہ جواب سن کرہلکی سی ہنسی آگئی، وہ ہنسی کو روکتے ہوئے بولا) ایسے مجھے کیسے پتا لگے گا کہ آپ کس مارکیٹ میں ہو؟ ڈرائیور نے جواب دیا:آپ ٹینشن مت لو سر، میں تھوڑی دیر میں لوکیشن پر پہنچ جاؤں گا۔اگلے پانچ منٹ میں گاڑی حاضر تھی۔زین اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ڈرائیور نے سنبھلتے ہوئے اس سے کہا: سر آپ نے اتنا ہنس کر بات کی! آپ سے پہلے میں پانچ بکننگ کینسل کر چکا ہوں۔ جب آپ کا فون آیا تو میں ایک کلو میٹر دور تھا، لیکن آپ نے اتنے پیار سے بات کی تو میں بولا کہ آتا ہوں۔سامنے والا محبت سے بات کرے ، تو آدمی منع نہیں کر پاتا۔
تمھاری وجہ سے
مہ جبین، عائشہ اور صالحہ ایک ساتھ کالج آتی جاتی تھیں۔ ایک دن وہ گھر واپس جا رہی تھیں کہ ٹرافک کے سبب بس رینگنے لگی۔ اس دوران انھوں نے نوٹس کیا کہ ایک لڑکا مسلسل انھیں گھور رہا تھا۔ آئے دن الٹی سیدھی خبریں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ مہ جبین اور عائشہ ڈر گئیں۔ ڈر کم کرنے کے لیے انھوں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ تو گھورے ہی جا رہا تھا۔ صالحہ نے ان دونوں کو ہمت بندھائی اور اس لڑکے کے پاس جا کر بولی: کیا پرابلم ہے تمھارا ؟لڑکا جواب کے لیے تیار نہیں تھا، وہ چونک گیا۔صالحہ نے اور سختی کے ساتھک کہا: پاگل واگل ہے کیا، کیا دیکھ رہا ہے تب سے ؟اس نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا: کچھ بھی تو نہیں۔صالحہ نے زور کی پھٹکار لگاتے ہوئے کہا: جاستی سمجھ میں آرا تے کو! تم جیسوں کی وجہ سے بچاری لڑکیاں اسکول کالج جانے سے بھی ڈرتی ہیں۔
وہ لڑکا بھیڑ کو چیرتے ہوئے بس کے دروازے تک گیا اور بغیر کچھ کہے بس سے اتر گیا۔
سرکاری نوکری
دسویں کے بعد خالد کو کسی نے بتایا تھا کہ سرکاری نوکری کے لیے آن لائن فارم بھرے جاتے ہیں اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر بھی ایسے فارم بکتے ہیں۔وہ دسویں جماعت تک ہی پڑھا ہوا تھا۔ سرکاری نوکری ایک بار لگ جانے کے بعد جو وارے نیارے ہوتے ہیں، وہ دیکھ سُن چکا تھا۔ اس لیے وہ کسی بھی درجے کی سرکاری نوکری کے لیے راضی تھا۔ اس نے دس سالوں میں کچھ نہیں تو کئی سو فارم بھرے ہوں گے ۔ فارم کی قیمت کے علاوہ رجسٹریشن فیس یہ وہ سب میں وہ ہزاروں روپے پھونک چکا تھا، لیکن اس کی نوکری نہیں لگی۔ ایسی نوکریوں میں تعصب اور رشوت بہت چلتا ہے یار!سب اپنے سگے والوں کو ہی لگاتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے خالد کا بھائی رونق آب دیدہ ہو گیا۔میں نے کہا : بغیر ہاتھ پیر مارے تو کچھ نہیں ہوتا،اسے بھی کسی بڑے آدمی کا سہارا لینا چاہیے تھا۔ رونق بولا : ارے بھائی !جس سے ذرا بھی امید تھی، اس نے ہر ایسے شخص سے سفارش کری۔ سب نے اس سے خوب خدمت لی، پھر چوسے ہوئے آم کی طرح چھوڑ دیا۔تو کیا اب اس نے کوشش چھوڑ دی؛ میں نے پوچھا۔رونق نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا: اب اسے نوکری کی ضرورت نہیں۔کیوں بھئی کوئی کام وام شروع کر دیا؟میں بولا۔ رونق نے اپنے گالوں پڑ ڈھلکتے ہوئے آنسوں پونچھتے ہوئے جواب دیا : تیس پینتیس سال کی عمر ہی میں وہ جنت مکیں ہو گیا۔اوہ سوری(sorry)۔ میں نے آہستہ سے کہا۔