افسانچے

ندیم احمد انصاری

حق

ثانیہ ایک سال کی تھی جب اس کے ابّا اپنے والدین سے ناراض ہو کر الگ رہنے لگے تھے۔اس کی دادی کےلیے وہ دور بہت سخت تھا، لیکن اس نے کسی طرح صبر کیا۔ کچھ وقت کے بعدثانیہ کے ابّا اپنے والدین سے کبھی کبھار ملنے آنے لگے، لیکن پچھلے کئی سالوں سے ثانیہ اور اس کی امّی بالکل اس طرف آکر نہیں پِھرتی تھیں۔دادی کو اس سے تکلیف ہوتی، لیکن وہ صبر کرتیں۔ ثانیہ اب بارہ سال کی ہو چکی تھی۔ اس کے برتھ ڈے پر دادی نے اسے فون کیاتو اس نے کہا: اگر میں آپ کے گھر آؤں تو آپ مجھے کیا گفٹ دوگے؟دادی نے سنبھلتے ہوئے کہا: میں کیا دے سکتی ہوں، اگر آجاؤ تو اپنی حیثیت کے مطابق جو بن سکے گا چھوٹا موٹا کیک منگوا دوں گی! ثانیہ نے کہا: بس کیک۔ آپ کا تو گفٹ دینے کا بھی حق بنتا ہے! دادی کا دل بھر آیا اور وہ سوچنے لگی: کیا واقعی بس میرا ہی حق بنتا ہے؟

کتاب

فنِ عروض پر آپ جو کام کر رہے تھے، وہ کہاں تک پہنچا اور کب تک منظرِ عام پر آجائے گا؟ علی سر نے اپنے ہونہار شاگرد مقصود سے معلوم کیا تو اس نے بتایا : ابھی وقت لگے گا سر! یہ کام کوئی ایک ہزار صفحات کو محیط ہوگا۔علی سر چونک گئے اور کہا: کیا؟ ایک ہزار صفحات؟ بھئی کچھ جامعیت اور اختصار سے کام لو! یہ ڈی پی اور اسٹیٹس پڑھنے کا زمانہ ہے، اتنی ضخیم کتاب تو لوگ خریدنا پسند نہیں کرتے، پڑھنا تو دور!

ذہن

اس مادّی دور میں انسان کے ذہن میں بہت کچھ چلتا ہے۔ کچھ بھی چلتا ہے۔ پتہ نہیں کیا کیا چلتا ہے۔ عامر نے کچھ پریشانی کے لہجے میں اپنے دوست کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، تو دوست اس کا غم غلط کرتے ہوئے بولا : چلنے دے یار! سب چلتا ہے!

ڈیٹا

سمیر نے یوں ہی بیٹھے بیٹھے اشوک سے پوچھا : تو کون سا ڈیٹا پلان یوز کرتا ہے یار انٹرنیٹ کے لیے ؟ اشوک نے جواب دیا : ڈیڑھ جی بی ڈیلی۔ ارے! اتنا ڈیٹا ختم ہو جاتا ہے دن بھر میں ؟ اشوک نے جواب دیا :کہاں یار !پورا دن تو یہاں کام پہ رہتا ہوں، تھوڑا بہت نیوز ویوز دیکھا اور بس۔ زیادہ سے زیادہ واٹس ایپ۔ ہاں رات میں کھانے کے بعد تھوڑا کچھ گانا وانا دیکھتا ہوں۔لیکن جب سوتا ہوں تو موبائل لڑکے کو دے کر سوتا ہوں۔وہ پورا وصول کرتا ہے، جب تک ڈیٹا ختم نہیں ہو جاتا ۔ پیسہ دیا ہے، فری کا تھوڑے ہی ہے۔

فون کی صفائی

ذی شان کے موبائل میں ایک ہزار سے زائد نمبر محفوظ تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اس کے دماغ میں پتہ نہیں کیا آیا کہ پوری کانٹیکٹ لسٹ کھنگالی اور قریب پانچ سو نمبڑ ڈلیٹ کر دیے۔اس میں اس کا کافی وقت صَرف ہوا۔ امّی نے دیکھا کہ وہ بہت دیر سے فون میں لگا ہوا ہے تو پوچھا: کیا ہوا ؟ کیا کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا:فون میں بہت دنوں سے صفائی نہیں کی تھی،جو لوگ کبھی فون وون نہیں کرتے ، ان کا نمبر ڈلیٹ کر رہا تھا۔ آدھے رہ گئے ۔

حوصلہ افزائی

پروفیسر شکیل کو پی ایچ ڈی مکمل کیے ہوئے پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا، لیکن آج تک انھوں نے اپنی تحقیق کتابی صورت میں شایع نہیں کی۔ جب کہ دیگر مصنفین کی کوئی آدھ پون درجن کتابوں میں تھوڑا بہت کام کرکے وہ انھیں بہ حیثیت مرتب شایع کر چکے ہیں۔وہ ریسرچ اسکالروں کے ایک پروگرام میں خطاب کر رہے تھے کہ نوجوان محققین کو زیادہ سے زیادہ لکھنے کی مشق کرنی چاہیے اور ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، تاکہ تحقیق کے میدان میں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کر سکیں۔ مبشر ایک جواں سال اور سخت کوش محقق ہے اور اساتذہ کے مشورے سے مختلف النوع خدمات میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اسے پروفیسر صاحب کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ اس نے پروگرام کے بعد اپنی تازہ تصنیف ان کی خدمت میں پیش کی تو نہ جانے کیوں وہ تو پھڑک اٹھے، جیسے پہلے سے خار کھائے بیٹھے ہوں۔ بڑی ترشی سے کہا: آپ بہت لکھتے ہیں! یاد رکھو شیر کے بچّے کم ہوتے ہیں، لیکن ان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ کتّے کے پلّے بہت ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی! مبشّرحیرت سے ان کے چہرے کو تاکنے لگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here