افطار میں جلدی کرنے والے بھلائی میںرہیں گے
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
عن سهل بن سعدأنَّ رسول الله ﷺقَالَ:لاَيَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ۔(متفقٌ عَلَيْهِ ) (ریاض الصالحین:۱۲۳۳)
حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہےکہ نبیٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تک لوگ افطارمیں جلدی کرتے رہیں گے تب تک بھلائی میں رہیں گے۔
عن أَبي عطِيَّة قَالَ : دَخَلْتُ أنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عائشةفَقَالَ لَهَا مَسْرُوق:رَجُلاَنِ مِنْ أصْحَابِ محَمَّدٍﷺكِلاَهُمَا لا يَألُو عَنِ الخَيْرِ؛أحَدُهُمَا يُعَجّلُ المَغْرِبَ وَالإفْطَارَ، وَالآخَرُ يُؤَخِّرُالمَغْرِبَ وَالإفْطَارَ؟ فَقَالَتْ : مَنْ يُعَجِّلُ المَغْرِبَ وَالإفْطَارَ؟ قَالَ : عَبْدُ اللهِ – يعني : ابن مسعود – فَقَالَتْ : هكَذَا كَانَ رسولُ اللهِ يَصْنَعُ. قَوْله : ( لا يَألُو ) أيْ : لاَ يُقَصِّرُ في الخَيْرِ .(رواه مسلم) (ریاض الصالحین:۱۲۳۴)
ابوعطیہ تابعی کہتےہیںکہ میںاورحضرت مسروق حضرت عائشہ کےپاس حاضرہوئے،حضرت عائشہ سے حضرت مسروق نے عرض کیا: نبیٔ کریم ﷺ کے صحابہ میں سے دوآدمی ایسے ہیں جوبھلائی اورنیکی کو حاصل کرنے کے معاملہ میں ذرّہ برابر کوتاہی سے کام نہیں لیتے(گویانیکی کرنےکےلیےہروقت تیار اور ریڈی رہتے ہیں،دونوں کا مزاج تویہی ہے)لیکن دونوں میں سے ایک مغرب اور افطارمیں جلدی کرتے ہیں،اور دوسرے دیرکرتےہیں۔حضرت عائشہنےپوچھا : وہ کون ہیں جومغرب اورافطارمیں جلدی کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود،توحضرت عائشہ نے فرمایا: نبیٔ کریم ﷺبھی اسی طرح کرتے تھے۔
شریعت میں دخل اندازی نہ کریں
سورج کے غروب ہوجانے کایقین ہوتے ہی جب افطار کرلیا کریں گے وہاں تک بھلائی میں رہیں گے۔گذشتہ مجلس میں بھی بتلادیاتھاکہ شریعت کی طرف سے روزہ کے لیے جو وقت مقرر کیاگیاہے کہ روزہ صبح صادق سے شروع ہوتاہے اور غروب آفتاب پر ختم ہوتاہے ،توشریعت یہ چاہتی کہ یہ وقت جو مقرر کیاگیاہے اس میں روزہ رکھنے والوںکی طرف سےزیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ویسے اگر کوئی آدمی اپنی سہولت کی وجہ سے آدھی رات کو سحری کھاکر سوگیاتو روزہ میں کوئی اشکال نہیں ،لیکن پھر بھی شریعت کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ بالکل آخری وقت میں سحری کی جائے،اس پراجر و ثواب زیادہ ملے گا۔
اسی طرح سے روزہ کاوقت غروبِ آفتاب پر ختم ہوتاہےتو جیسےہی آفتاب کےغروب ہونے کایقین ہوجائے تواب افطار میں دیرنہیںکرنی چاہیے،جتنا جلدی افطارکریں گے اتناثواب زیادہ ملے گا،اس لیے اب افطارکرنے میں دیرکرنا ایک طرح کاغلوہے ،اورمیں پہلےبھی بتلاچکاہوں کہ جہاںشریعت کے احکام پرعمل کی شریعت کی طرف سے تاکید کی گئی ہے،وہیں ایک مزاج یہ بھی بنایاگیا ہے کہ ان احکام پرعمل کے معاملہ میں بندے اپنی طرف سے کوئی چیز نہ بڑھائیں ۔ہم یوں سوچیں کہ سورج ڈوب گیاپھر بھی پندرہ منٹ اگرٹھہرجائیں تواس میں کیاحرج ہے،تو گویااللہ تعالیٰ نےروزہ کاجو وقت مقررکیاتھااس میںہم نے اپنی طرف سے پندرہ منٹ کا اضافہ کردیا،گویاہمارایہ طرزشریعت میں ایک طرح کی دخل اندازی کہلاتی ہے، اس لیے اس کو پسندنہیں کیاہے۔اسی لیے دیکھوکہ وضوکے اندربھی حکم یہ ہے کہ اعضاء تین تین مرتبہ دھوئے جائیں گے،حدیث ِ پاک میں آتاہے کہ جوآدمی ان کوتین سے زیادہ مرتبہ دھوئےگاتو اس نے گویا شریعت کی مقرر کی ہوئی حدسے تجاوز کیا’’فقدتعدیٰ وظلم‘‘اس نے زیادتی کی اورظلم کیا ۔حالاںکہ تین میں ایک مرتبہ اگراضافہ کیاتواس میں توکمال پیدا ہونا چاہیے، لیکن شریعت کہتی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے،جب آپ کے لیے ایک حدمقرر کی گئی ہے توآپ اپنی طرف سے ایک مرتبہ بڑھاکیوں رہے ہیں۔دین پرعمل کے معاملہ میں ہم اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرناچاہیںتویہ ایک طرح کاغلو شمار کیاگیاہے۔
[email protected]