صدقۂ فطر کی حیثیت اور ضروری احکام و مسائل

صدقۂ فطر کی حیثیت اور ضروری احکام و مسائل
ندیم احمد انصاری

’الفطر‘ کے معنیٰ ہیں ’اختتامِ روزہ‘۔ اسی لیے عیدالفطر کے دن صاحبِ نصاب مسلمان پر جو صدقہ غریبوں اور محتاجوں کو دیناواجب ہوتا ہے، اسے ’زکوٰۃ الفطر‘ یا ’صدقٔہ فطر‘ کہتے ہیں۔ (القاموس الوحید)

صدقۂ فطر کی حیثیت
صدقۂ فطر کی دو حیثیتیں ہیں؛ ایک روزے دار کی کوتاہیوں کا کفارہ اور دوسرے غریبوں کی عیدی اور امداد۔ اصلاً صدقۂ فطر واجب تو عید الفطر پر ہی ہوگا لیکن اگر عید سے پہلے یعنی رمضان ہی میں اس کو ادا کر دیا جائے تو فقہاء کی صراحت کے مطابق ادا ہو جائے گا اور ایسا کرتے ہوئے اگر دل میں غریبوں کے لیے نرم گوشا پایا گیا تو اس کا ثواب بھی مستقل ہوگا، ان شاء اللہ ۔حضرت نبی کریمﷺ نے صدقۂ فطر کو ضروری قرار دیا، جو کہ روزے دار کے لیے لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ اور مسکینوں کے لیے کھانے کا انتظام ہے، جو شخص عید کی نماز سے پہلے اسے ادا کر دے، اس کے حق میں یہ مقبول زکوٰۃ ہوگی اور جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے، اس کے حق میں یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں ہمارے زمانے میںلوگ یعنی صحابۂ کرامؓ صدقۂ فطر ایک یا دو دنوں پہلے ہی ادا کر دیا کرتے تھے۔(ابوداؤد)فی التاتار خانیہ: والمختار إذا دخل شہر رمضان یجوز، وقبلہ لا یجوز، وفی الظہیریۃ: وعلیہ الفتویٰ۔ (تاتارخانیۃ زکریا)

صدقۂ فطر کسی پر واجب ہے؟
جس آزاد اور مکلف مسلمان کے پاس لازمی ضروریات کے علاوہ اتنی قیمت یا اتنی قیمت کا مال ہو جس پر زکوٰۃ واجب ہوسکے، اس پر صدقٔہ فطر ادا کرنابھی واجب ہوتا ہے۔ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے و جوب میں یہ فرق ہے کہ زکوٰۃ میں مالِ نامی ہونا لازمی ہے اورصدقٔہ فطر میں یہ ضروری نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہےجب کہ مال پرپورا سال گزر جائے اور صدقٔہ فطر کے لیےسال گزرنا شرط نہیں۔اگر کسی کے پاس ایک شوال کی صبح صادق طلوع ہونے کے وقت اتنا مال موجودہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہو جائے گا۔ البتہ! صدقٔہ فطر میں بھی زکوٰۃ کی طرح مال کا قرض اور ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے، ورنہ صدقٔہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب، أو قیمۃ وان لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر ، ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین ، وحاجتہ الأصلیۃ۔(مراقی الفلاح مع الطحطاوی )

صدقۂ فطر کس کی طرف سے؟
ہر صاحبِ نصاب پر اپنی طرف سے اور جو نابالغ اولاد خود کسی نصاب کی مالک نہ ہو ان کی طرف سے ان کے والد پر صدقٔہ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اگر وہ بچے خود نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال میں سے صدقٔہ فطر ادا کیا جائے گا۔عاقل بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا والد پر ضروری نہیں ہے، لیکن اگر وہ بچے باپ کی پرورش میں رہتے ہوں اور باپ ان کی طرف سے صدقٔہ فطر ادا کردے تو درست ہوجائے گا۔ اگر کوئی بچہ عقل کے اعتبار سے کمزور یا پاگل ہو تو اس کی طرف سے بھی صدقٔہ فطر ادا کیا جائے گا، اگرچہ وہ بڑی عمر کا ہو۔نیز بیوی کا صدقٔہ فطر، شوہر پر واجب نہیں لیکن اس کی طرف سے اگر وہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا، خواہ بیوی سے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو۔ولایؤدی عن زوجتہ، ولا عن أولادہ الکبار، وإن کانوا فی عیالہ ولو أدی عنہم أو عن زوجتہ بغیر أمرہم أجزأہم استحساناً کذا فی الہدایۃ و علیہ الفتوی۔(ہندیہ) لا عن زوجتہ وولدہ الکبیر العاقل۔(الدر المختار مع الرد دار) واحترز بالعاقل عن المعتوہ والمجنون فحکمہ کالصغیر ولو جنونہ عارضاً فی ظاہر الروایۃ۔(الرد المحتار علی الدر،دار)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here