اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابۂ کرامؓکی صفت و ثنا بھی بیان فرمائی

مفتی ندیم احمد انصاری

رسول اللہ حضرت محمد ﷺ کے صحابۂ کرامؓکو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ قرآن مجید کی اول مخاطبین جماعت ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں ان کی شان بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کی جس قدر بھی صفاتِ فاضلہ کا ذکر آیا ہے-مثلاً مومنین، مسلمین، متقین، صادقین، صدیقین، شُہدا، صالحین، قانتین، صابرین، شاکرین، تائبین، عابدین، راکعین، ساجدین، آمرین بالمعروف، ناہین عن المنکر،حافظون لحدود اللہ، محسنین، متوکلین، مہتدین اور مفلحین وغیرہ وغیرہ-ان صفاتِ فاضلہ کا اولین مصداق صحابۂ کرامؓہیں۔ (عقائد الاسلام)

صحابۂ کرامؓکی صفت و ثنا

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابۂ کرامؓکی صفت و ثنا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انھیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوش نودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں اور انجیل میں۔ اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تَنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے‘‘۔(الفتح) اس میں پہلے حضرت نبی کریم ﷺ کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے رسولِ بر حق ہیں، پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر)

خدائی امتحان اور کامیابی کا اعلان

اس مقامِ عالی شان پر فائز کرنے کے لیے خود باری تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓکا امتحان لیا اور پھر کامیابی کی سند بھی عنایت فرمائی۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقوے کے لیے منتخب کرلیا ہے ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔ (الحجرات) صاحبِ ’معالم التنزیل‘ لکھتے ہیں : جس طرح سونے کو پگھلا کر خالص کردیا جاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قلوب کو تقوے کے لیے خالص کردیا ہے، ان کے قلوب میں تقویٰ ہی تقویٰ ہے۔ حضرات صحابۂ کرامؓکے آداب و احترام کو دیکھو اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کو اور مدح اور توصیف کو دیکھو۔ (تفسیر انوار البیان)

صحابۂ کرامؓکا ایمان کسوٹی ہے

اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابۂ کرامؓکا ایمان کسوٹی اور پیمانہ ہے، کوئی اگر ایمان میں داخل ہونا چاہےاس کے لیے لازم و ضروری ہے کہ اُنھیں کی طرح ایمان لائے۔ارشادِ ربانی ہے:’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بے وقوف لوگ ایمان لائے ہیں ؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے‘‘ ۔(البقرۃ)اس آیت میں’دوسرے لوگ‘ سے مراد بہ اتفاقِ مفسرین صحابۂ کرامؓہیں کیوں کہ وہی حضرات ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت ایمان لائے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہی ایمان معتبر ہے جو صحابۂ کرامؓکے ایمان کی طرح ہو، جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہوگا تو ایمان لیا جائے گا، ورنہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرامؓکا ایمان ایک کسوٹی ہے جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا، جو اس کسوٹی پر صحیح نہ ہو اس کو شرعاً ایمان اور ایسا کرنے والے کو مومن نہ کہا جائے گا۔ اس کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل -خواہ ظاہر میں کتنا ہی اچھا نظر آئے اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے- اللہ کے نزدیک ایمان معتبر نہیں۔ (معارف القرآن)ایک جگہ فرمایا گیا: ’’اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہِ راست پر آجائیں گے‘‘۔(البقرۃ)

صحابہؓ کے دلوں میں ایمان کی محبت

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓکی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اُن کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی گئی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اصول پر عمل کرتے ہیں:’’اللہ نے تمھارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اسے تمھارے دلوں میں پُرکشش بنادیا ہے، اور تمھارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے، ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں‘‘۔ (الحجرات)

صحابۂ کرامؓ کو رضامندی کا پروانہ

اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓکو دنیا میں ہی اپنی رضا کا پروانہ دے دیاہے، سورۂ فتح میں ارشاد فرمایا:’’یقیناً اللہ ان مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا، وہ بھی اللہ کو معلوم تھا، اس لیے اُس نے اُن پر سکینت اُتار دی اور اُن کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرما دی‘‘۔(الفتح)اس آیت میں حق تعالیٰ نے اس بیعت (رضوان) کے شرکا سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے، اسی لیے اس کو’ بیعتِ رضوان‘ بھی کہا جاتا ہے اور مقصود اس سے ان شرکاےبیعت کی مدح اور ان کو اس عہد کے پورا کرنے کی تاکید ہے۔ یہ بشارتیں اس پر شاہد ہیں کہ ان سب حضرات کا خاتمہ ایمان اور اعمالِ صالحہ مرضیہ پر ہوگا، کیوں کہ رضاے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت دے رہا ہے۔(تفسیر معارف القرآن)

دونوں طبقوں کے ساتھ وعدۂ حسنیٰ

اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓکے دو طبقے کیے اور فرمایا کہ ایک طبقہ وہ ہے جو فتحِ مکہ سے قبل ایمان لایا دوسرا طبقہ وہ ہے جو فتحِ مکہ کے بعد ایمان لایا،لیکن ان دونوں طبقوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا وعدہ فرما چکا ہے۔ سورۂ حدید میں ہے: ’’تم میں سے جنھوں نے (مکّے کی) فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں، وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنھوں نے (فتحِ مکّہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔(الحدید) آیاتِ مذکورہ میں حق تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓکے دو طبقے قرار دیےہیں؛ ایک وہ جنھوں نے فتحِ مکہ سے پہلے مسلمان ہو کر اسلامی خدمات میں حصہ لیا، دوسرے وہ لوگ جنھوں نے فتحِ مکہ کے بعد یہ کام کیا ہے۔ پہلے لوگوں کا مقام بہ نسبت دوسرے لوگوں کے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔عزم و ہمت اور قوتِ ایمان کے درجات متعین کرنے کے لیے فتحِ مکہ سے پہلے اور بعد کے حالات ایک حدِ فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لیے آیتِ مذکورہ میں فرمایا کہ یہ دونوں طبقے برابر نہیں ہو سکتے۔آیاتِ مذکورہ میں اگرچہ صحابہ کرامؓمیں باہمی درجات کا تفاضل ذکر کیا گیا ہے، لیکن آخر میں فرمایا {وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى} یعنی باوجود باہمی فرقِ مراتب کے، اللہ تعالیٰ نے {الْحُسْنٰى}یعنی جنت و مغفرت کا وعدہ سب ہی کے لیے کرلیا ہے۔(تفسیر معارف القرآن)

سابقین اولین اور بعد والے

سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا گیا: ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے اور جنھوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی زبردست کامیابی ہے‘‘۔(التوبۃ) {السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ}میں سب مہاجر و انصار آگئے اور{الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ} میں بقیہ مومنین جن میں اول درجہ تو ان کا ہے جو صحابہ ہیں گو مہاجر و انصار نہیں، کیوں کہ اخیر میں ہجرت فرض نہ تھی، مسلمان ہو کر اپنے اپنے گھررہنے کی اجازت تھی، اور دوسرا درجہ تابعین بالمعنی الاصطلاحی کا ہے، پھر غیر صحابہ وغیر تابعین کا، پھر خود اس اخیر درجے میں بھی تفاوت ہے کہ تبعِ تابعین فضل میں اوروں سے مقدم ہیں، جس طرح صحابہ میں مہاجرین و انصار دوسرے صحابہ سے افضل ہیں۔(بیان القرآن)

آخرت میں استقبال

سورۃ الانبیا میں ارشاد فرمایا گیا: ’’ جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی پہلے سے لکھی جاچکی ہے ان کو اس جہنم سے دور رکھا جائے گا، وہ اس کی سرسراہٹ بھی نہیں سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من پسند چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ ان کو وہ (قیامت کی) سب سے بڑی پریشانی غم گین نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا ( یہ کہہ کر) استقبال کریں گے؛ یہ تمھارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا!‘‘ (الانبیا)

(مضمون نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here