مفتی ندیم احمد انصاری
اچھے سماج کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے آپسی تعلقات اچھے ہوں اور اچھے تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے اور لوگ ایک دوسرے کو چھوڑ کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے کام آئیں ، لیکن اب توہر شخص وقت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اپنے رشتےداروں، سگے بھائی بہنوں بلکہ سگے ماں باپ تک سے ملنے کی فرصت نہیں نکال پاتا، دوسروں کا تو ذکر ہی کیا؟ انھیں ان ملاقاتوں کے لیے جیتے جی فرصت ہی نہیں، شاید انھیں الگ سے کوئی وقت ملنے کی امید ہے۔ مرنے کی اطلاع پا کر بھی بعض لوگ اتنی تاخیر سے آتے ہیں کہ بعض مرتبہ تدفین بھی ہو چکی ہوتی ہے۔نسبی و سسرالی رشتوں کا حال بُرا ہے، دوست احباب کے لیے وقت نہیں، دینی اور انسانی بنیادوں پر ملنے ملانے کا تو رواج ہی ختم ہو گیا۔ رہی سہی کسر فون نے پوری کر دی، ایک فون کال یا میسیج کر دینے کو ملاقات کا متبادل سمجھا جانے لگا۔ فون میں تو پھر بھی آواز سنائی دیتی ہے، ویڈیو کال سے بھی کلیجا ٹھنڈا ہو جاتا ہے، لیکن میسیج تو اطلاعِ محض ہے جو جذبات سے بالکل محروم ہے۔ ایک میسیج کر دینے سے لوگ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حقِ وفاداری ادا کر دیا۔ بعضوں کے پاس تو میسیج کرنے یا میسیج کا رپلائی دینے تک کا وقت نہیں،آپ آج ان سے رابطہ کریںتو وہ تین دنوں کے بعد لکھتے ہیں کہ کام میں تھا، گویا انھوں نے بہتّر گھنٹے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر گزاری۔انھیں کو آپ سے کوئی کام پڑ جائے تو لجاجت سے کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ جس ٹائم بولو اس ٹائم آجاتا ہوں۔ اسلام نے نہ صرف نسبی یا سسرالی رشتےداروں ، دوست احباب بلکہ دینی بھائیوں کے ساتھ تعلقات نبھانے کی تاکید کی ہے۔ہر تعلق اور رشتے کا پاس و لحاظ ضروری ہے اور اس پر عظیم اجر کا وعدہ بھی ہے۔
اس نے ایمان مکمل کر لیا
حضرت ابوامامہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی خاطر محبت کی، اللہ کی خاطر نفرت کی، اللہ ہی کی خاطر (مال) دیا اور اللہ ہی کی خاطر (مال) روکا، بےشک اس نے ایمان مکمل کرلیا۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَنَّهُ قَالَ: “مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ”. [ابوداود]
ایمان کی مضبوط شاخ
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوذرؓسے فرمایا: ابوذر ؓ تم جانتے ہو ایمان کی کون سی شاخ زیادہ مضبوط ہے؟ حضرت ابوذرؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رضا کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا ، اللہ کی رضا کے لیے دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا کے لیے نفرت رکھنا ایمان کی مضبوط شاخ ہے۔ عن ابن عباس قال قال رسول الله ﷺ لأبي ذر يا أبا ذر أي عرى الإيمان أوثق ؟ قال الله ورسوله أعلم . قال الموالاة في الله والحب في الله والبغض في الله.[مشکوۃ]
ستّر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں
حضرت ابورزینؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا: میں تمھیں اس امر یعنی دین کی جڑ نہ بتادوں جس کے ذریعے تم دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرسکو؟ (پھر آپ نے فرمایا) سنو! ان چیزوں کو تم اپنے اوپر لازم کرلو: اہلِ ذکر کی مجالس میں بیٹھا کرو، جب تنہا رہو تو جس قدر ممکن ہو ذکر اللہ کے ذریعے اپنی زبان کو حرکت میں رکھو، تم کسی کو دوست رکھو تو محض اللہ کی رضا کے لیے اور کسی کو دشمن رکھو تو محض اللہ کی رضا کے لیے۔اے ابورزین! کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی زیارت و ملاقات کے ارادے سے گھر سے نکلتا ہے تو ستّر ہزار فرشتے اس کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ سب اس کے لیے دعا و استغفار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے رب اس شخص نے محض آپ کی رضا کے لیے مسلمان بھائی سے ملاقات کی ہے آپ اسے اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ جوڑ دیجیے،پس اگر تمھارے لیے ان چیزوں میں اپنی جان کو لگانا یعنی ان پر عمل کرنا ممکن ہو تو انھیں ضرور اختیار کرو۔ عن أبي رزين رضي الله عنه أنه قال له رسول الله ﷺ : ألا أدلك على ملاك هذا الأمر الذي تصيب به خير الدنيا والآخرة؟ عليك بمجالس أهل الذكر ، وإذا خلوت فحرك لسانك ما استطعت بذكر الله ، وأحب في الله وأبغض في الله ، يا أبا رزين ! هل شعرت أن الرجل إذا خرج من بيته زائرا أخاه ، شيعه سبعون ألف ملك ، كلهم يصلون عليه ويقولون : ربنا إنه وصل فيك ، فصله ، فإن استطعت أن تعمل جسدك في ذلك فافعل ” .[مشکوۃ]
اللہ کی خاطر ملاقات کرنے والے
حضرت ابوہریرہؓکہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا، آپ فرمانے لگے: جنت میں یاقوت کے ستون ہیں جن پر زمرد کے بالا خانے بنے ہوئے ہیں، ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور وہ بالاخانے اور ان کے دروازے اسی طرح روشن اور چمکتے ہیں جیسے روشن ستارے۔ صحابۂ کرامؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان میں کون لوگ رہیںگے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جو اللہ کی رضا کی خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں، اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کی صحبت اختیار کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کی خاطر آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔ عن أبي هريرة ، قال : كنت مع رسول الله ﷺ ، فقال رسول الله ﷺ : ” إن في الجنة لعمدا من ياقوت ، عليها غرف من زبرجد ، لها أبواب مفتحة ، تضيء كما يضيء الكوكب الدري ” ، فقالوا : يا رسول الله من يسكنها ؟ ، قال : ” المتحابون في الله ، والمتجالسون في الله ، والمتلاقون في الله ۔ [شعب الايمان بیہقی]
اللہ کی خاطر بھائی سے محبت کا صلہ
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص اپنے بھائی کی ملاقات کی خاطر ایک دوسرے گاؤں کی طرف گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں ایک فرشتہ کھڑا کر دیا، جب وہ وہاں پہنچا تو اس فرشتے نے پوچھا : کہاں جارہے ہو ؟ وہ بولا : اس گاؤں میں میرا ایک بھائی ہے، میں اسے دیکھنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا : کیا اس کا تیرے اوپر کوئی احسان ہے جس کے سبب تم اس کے پاس جا رہے ہو ؟ وہ بولا :اس کا مجھ پر کوئی احسان نہیں، صرف اللہ کے لیے میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کا قاصد ہوں اور اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت رکھتا ہے جیسے تو اس کی خاطر اپنے بھائی سے محبت رکھتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: ” أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا، فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَخًا لِي فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ: هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ: لَا، غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيهِ”. [مسلم]
رشتےداری ہی ضروری نہیں
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی دوسری بستی میں رہنے والے اپنے دینی بھائی سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو بٹھا دیا، جب وہ فرشتے کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے اس سے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا: فلاں آدمی سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں فرشتے نے پوچھا: کیا تم دونوں کے درمیان کوئی رشتے داری ہے ؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جسے تم پال رہے ہو ؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتے نے پوچھا: پھر تم اس کے پاس کیوں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا: میں اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں اللہ کے پاس سے تیری طرف قاصد بن کر آیا ہوں، اس کے ساتھ محبت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے محبت کرتا ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ يَزُورُ أَخًا لَهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى فَأَرْصَدَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِمَدْرَجَتِهِ مَلَكًا فَلَمَّا مَرَّ بِهِ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ أُرِيدُ فُلَانًا قَالَ لِقَرَابَةٍ قَالَ لَا قَالَ فَلِنِعْمَةٍ لَهُ عِنْدَكَ تَرُبُّهَا قَالَ لَا قَالَ فَلِمَ تَأْتِيهِ قَالَ إِنِّي أُحِبُّهُ فِي اللَّهِ قَالَ فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ أَنَّهُ يُحِبُّكَ بِحُبِّكَ إِيَّاهُ فِيهِ[مسند احمد]
قیامت میں عرش کا سایہ
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں آپس میں محبت کرنے والے؟ میرے جلال کی قسم ! آج کے دن میں انھیں اپنے (عرش کے) سائے میں رکھوں گا کہ جس دن میرے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي الْيَوْمَ، أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي “.[مسلم]
دینی بھائی سے ملاقات کرنا
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے تو ایک اعلان کرنے والا ندا دےگااور کہے گا: تمھیں مبارک ہو! تمھارا چلنا مبارک ہو! تم نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” مَنْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ زَارَ أَخًا لَهُ فِي اللَّهِ، نَادَاهُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا . [ترمذی]