اپریل فول کی مناسبت سے خصوصی تحریر
اے ایمان والو!تم میں سے کوئی کسی کا مذاق نہ اڑائے
ندیم احمد انصاری
اسلام دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے، اس نے اپنے ماننے والوں کو ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات دیا ہے، جس پر عمل در آمد سے ہر قسم کا چین و سکون نصیب ہوتا ہے اور جس سے رو گردانی انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب اللہ میں اور رسول اللہﷺ نے اپنی سنت میں انسان کو ان تر تعلیمات سے نوازا ہے، جو قیامت تک آنے والے ہر ہر انسان کے لیے کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ پھر یہ ذریعہ بھی تخمینی نہیں بلکہ یقینی ہے اور اس پر ظاہری طور پر عمل کرنا اور باطنی طور پر دل کی گہرائیوں سے اس پر یقین رکھنا ہی ایمان واسلام کہلاتا ہے۔
انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر کسی انسان کی زندگی یا خوش گوار زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ اسی لیے قرآن مجید و احادیثِ مبارکہ میں معاشرت سے متعلق آداب پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، جس کا پاس و لحاظ انسانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنا آپس میں عداوت و دشمنی کا سبب ہوتا ہے، جو کسی بھی صالح معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔قرآن و احادیث کےواضح ارشادات سے پتا چلتا ہے کہ ہر ایک بندے پر اللہ کے دوسرے بندوں کے کچھ حق واجب ہوتے ہیں، انھیں حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ کسی کی عزت نیلام اور آبروریزی نہ کی جائے۔
کسی کی عزت و آبر پر حملے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، من جملہ ان کے ایک اہم اورمعاشرے میں رائج ایک عام طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔جو کسی بھی انسان کو نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔اس کے بعد فاعل اور مفعول دونوں کی طرف سے متعدد گناہ سرزد ہونے کا امکان بنا رہتا ہے،جس کا مشاہدہ ہر بینا کر سکتا ہے۔اس ایک گناہ کے جو نتائج سامنے آتے ہیں، ان کی مختصر فہرست حسبِ ذیل ہو سکتی ہے:(۱) گالی گلوچ کا امکان (۲) ہاتھا پائی کی نوبت(۳) دلوں میں بغض ،کینہ و حسد کا جنم(۴) انتقام اور بدلے کا جذبہ (۵) بد گمانی ۔
ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں انسان کے لیے دنیا میں بھی صعوبتوں کا سبب بنتی ہیں اور آخرت میں ان پر عذاب کا امکان ہے۔ جو لوگ اس قسم کا مشغلہ رکھتے ہیں وہ یقیناً اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔
مذاق کرنا اور مذاق اڑانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مذہبِ اسلام کی رو سے مذاق و مزاح ایک ایسا موضوع ہے، جس کو اکثر محدثین نے مستقل عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ جس میں وہ ایسی حدیثیں لاتے ہیں، جن سے رسول اللہﷺ اور اصحابِ رسولﷺ کے زبانی یا عملی مزاح کی تصویر کشی ہوتی ہے۔بات یہ ہے کہ انسان دنیا میں جن مسائل کے درمیان گھرا رہتا ہے، فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ کبھی ساعت دو ساعت ذہن کو اس بوجھ سے آزاد ہونے کا بھی موقع ملے۔اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے انسان مزاح و ظرافت کا سہارا لیتا ہے، جس سے باہمی محبت اور الفت بھی بڑھتی ہے، مساوات و برابری کا اظہار ہوتا ہے اور دوسروں کولمحہ دو لمحہ خوش ہونے کا موقع میسر آتا ہے۔اس لیے شریعت نے اسے نہ صرف مزاح و جائز رکھا، بلکہ انسانِ کامل پیغمبرِ اسلامﷺنےعملاً مزاح کرکے بھی بتایا، جس کی بہت سی مثالیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بھی ارشاد فرمایا دیا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ الخ۔ اے ایمان والو! مَردوں کی کوئی جماعت دوسرے مَردوں کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ (الحجرات)
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پنڈلی کھل گئی، ان کی پنڈلیاں بہت پتلی تھیں۔ بعض لوگ یہ دیکھ کر ہنس پڑےتو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم ان پنڈلیوں کے دُبلا ہونے کی وجہ سے ہنس رہے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہ میزان میں اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوں گی۔(مسند احمد ابن حنبل)
یاد رہےکسی شخص کی تحقیر و توہین کےلیے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا، جس سے لوگ ہنسنے لگیں، اس کو سخر، تمسخر یااستہزا کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے، ایسے ہی ہاتھ، پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اُڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا ایسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں قرآن کے نص سے حرام ہیں۔ (معارف القرآن بتصرف)
جو لوگ دنیا میں اللہ کے بندوں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے انجام کے متعلق ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا؛ آؤ! جب وہ اپنے مصائب و آلام کے ساتھ دروازے کے قریب پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا؛ آؤ یہاں آؤ! وہ اپنے آلام و مصائب کے ساتھ اس دروازے تک آئیں گے ، تو پھر دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ اسی طرح بار بار ہوتا رہے گا،یہاں تک کہ ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گاکہ جب ان سے کہا جائے گا؛ آؤ، آؤ! تو وہ( تھک ہار کر) آئیں گے ہی نہیں۔(احیاء العلوم)یعنی دنیا میں جس طرح وہ اللہ کے بندوںکی مذاق اڑایا کرتے تھے، قیامت میں ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین
٭٭٭٭