سماج میں پھیلتی تصویر کشی کی وبا اور بے لگام ہوتے لوگ

قسط اول

سماج میں پھیلتی تصویر کشی کی وبا اور بے لگام ہوتے لوگ
ندیم احمد انصاری

دورِ حاضر میں تصویر کشی ایسا گناہِ بے لذت ہے، جس میں اچھے اچھوں سے لغزش ہو رہی ہے۔ حال یہ ہے کہ اب اس گناہ کو گناہ سمجھنے کے لیے بھی بہت سے لوگ تیار نہیں، جو نہایت افسوس ناک صورتِ حال ہے۔اس لیے کہ کسی گناہ کے ارتکاب میں ایک گناہ شمار ہوتا ہے،جب کہ اسے گناہ سمجھے بغیر انجام دینا دو گناہوں کو شامل ہے۔مانا کہ ڈجیٹل فوٹوگرافی کی بابت دورِ حاضر کے علماے ربانیین میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ سابقہ موقف کی طرح اسے ناجائز کہتا ہے اور دوسرا طبقہ بعض خاص مقاصد کے تحت اس میں گنجائش کا قائل ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی بلاوجہ و بلاضرورت صرف شوق کے ہاتھوں فوٹو یا سیلفی پہ سیلفی لینے وغیرہ کو درست نہیں مانتا۔مجوزین بھی بعض شرطوں کے ساتھ ہی جواز کے قائل ہیں۔جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ حرمین شریفین میں، مسجدوں اور خانقاہوں میں، دینی سفر میں اور مقدس مقامات پر بھی احتیاط سے کام نہیں لیتے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ تصویر یا ڈیجیٹل تصویر کو ناجائز کہتے ہیں، قحط الرجال کے اس دور میں ایسے چند ہی ہوں گے جو عملی طور پر بھی اس پر جمے رہتے ہیں۔

مضمونِ ہٰذا کو سپردِ قلم کرنے کا سبب سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم کے دل کی وہ چبھن ہے، جس کا احساس چند روز قبل گردش کرنے والی حضرت موصوف کی اس آڈیو سے ہوا ہے، جو کھروڈ میں حضرت شیخ یونس جونپوری رحمہ اللہ پر منعقد ہونے والے سمینار میں کیمرے اور تصویر کی بابت دور دراز تک سنی گئی۔اس سے قبل بھی حضرت مرشدی مدظلہ کے ساتھ اس قسم کے بعض حادثات پیش آچکے ہیں، جس پر حضرت کی ایک تحریر بھی سامنے آئی تھی، جس کے چند اقتباسات حسبِ ذیل ہیں:

’گذشتہ ہفتے اوائلِ رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں اتفاق سے حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم سے مسجدِ حرام میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نماز کی صفوف میں بیٹھے ہوئے گفتگو کر رہے تھے،اس دوران ہماری لاعلمی میں کسی نے فوٹو کھینچ لیا۔ چند روز کے بعد جب مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو پتا چلا کہ یہ فوٹو واٹس ایپ پر تیزی سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے۔ پھر جب سفرِ عمرہ سے وطن لوٹا تو پتا چلا کہ بعض اردو اخبارنے بھی اسے چھاپ کر نشر و اشاعت میں خوب حصہ لیا ہے۔ اُن ہی پر شرعی ذمّے داری ہے، آج چاہے وہ چُھپ جائیں اور منظرِ عام پر نہ آئیں،لیکن میدانِ حشر میں کہیں چھپ نہیں سکتے۔ میدانِ حشر میں اللہ کے حضور اُن کا دامن پکڑ کر اللہ کے سامنے پیش کروں گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے ارشاد: والذین یؤذون المؤمنون بغیر ماکتسبوا فقد احتملوا بھتاناً و اثماً مبیناً(اور جو لوگ مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انھوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے) دھجیاں اڑائی ہیں۔احقر اپنی پارسائی نہیں بیان کرنا چاہتا، بلکہ تصویر کے مسئلے میں اپنا مسلک و موقف بیان کرنا اپنی ذمّے داری سمجھتا ہے۔ احقر از روئے مسئلہ تصویر کشی –چاہے کسی بھی آلے کے ذریعے ہو– کو حرام اور ناجائز سمجھتا ہے اور میرے محتاط اکابر کا یہی مسلک ہے۔ کسی بھی دینی مجلس، محفل، سمینار، اجلاس، شادی بیاہ میں تصویر کشی کا علم ہوتا ہے، تو وہاں جانے سے احتراز کرتا ہے۔‘حضرت والا نے اس تحریر کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ میرا موقف تصویر کے مسئلے میں ہمیشہ سے شدت کا تھا اور ہے۔ اس تحریر سے میں صاف اعلان کرتا ہوں کہ میری لاعلمی میں کسی نے میری تصویر کھینچ لی ہو، تو میں اس سے سے بَری ہوں۔ جن لوگوں کے موبائل، واٹس ایپ (وغیرہ) میںحالیہ واقعے کی یا ماضی کے کسی موقع کی تصویر ہو، اُن کو اللہ کا واسطہ دے کر کہہ دیتا ہوں کہ اُسے مٹا دیں، ان شاء اللہ عند اللہ ماجور ہوں گے۔(10رمضان المبارک، 1436ھ)

اس لیے اصل مسئلے پر گفتگو کرنے سے قبل یہ بھی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے خدارا ہوش کے ناخن لیں اور باز آئیں۔ اس لیے کہ عام انسان کے دل کو دکھانا جب سخت بُرا ہے تو اہل اللہ کے دل کو دُکھانا کیسا سخت ہوگا۔

حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے کعبۃ اللہ کی طرف نظر دوڑائی اور ارشاد فرمایا : تیری عزت و حرمت بہت زیادہ ہے اور تیرا حق بہت زیادہ ہے،اور یقیناً مسلمان حرمت و عزت میں تجھ سے بڑھا ہوا ہے، اللہ رب العزت نے اس کا مال حرام کردیا اور اس کو تکلیف پہنچانا حرام کردیا اور یہ کہ اس کے متعلق براخیال رکھا جائے۔ عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ نَظَرَ إِلَی الْکَعْبَۃِ ، فَقَالَ : مَا أَعْظَمَ حُرْمَتَکَ ، وَمَا أَعْظَمَ حَقَّک ، وَلَلْمُسْلِمُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً مِنْکِ ، حَرَّمَ اللَّہُ مَالَہُ ، وَحَرَّمَ دَمَہُ ، وَحَرَّمَ عِرْضَہُ وَأَذَاہُ ، وَأَنْ یُظَنَّ بِہِ ظَنَّ سوئٍ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)نیز حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری صاحبؒ کے ملفوظات میں ہے کہ اللہ والوں سے بدگمانی کبھی نہ کرناچاہیے اور نہ اُن کے ساتھ کوئی تکلیف دہ معاملہ کرنا چاہیے۔ اللہ والوں کو تکلیف دینے والا آدمی بہت جلد مبتلاے قہر ہوجاتا ہے اور حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے استد لال فرماتے تھے کہ ایک بار حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اس امر کے متعلق اختلاف ہوا کہ آپ کو دوا پلائی جائے یا نہیں۔ جب کہ حضورﷺ پر عالمِ نزع طاری تھا اور حضورﷺنے دوا پینے سے انکار فرمادیا تھا اور پھر غشی طاری ہوگئی تھی۔ بعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ اجتہاد کیا کہ یہ انکار ایسا ہی ہے جیسا کہ مرض کی شدّت میں ہر انسان غیر ارادی طور پر غفلت اور بے ہوشی میں دوا پینے سے انکار کردیتا ہے اوربعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ اجتہادکیا کہ نہیں!آپ ﷺنے جو حکم فرمایا ہے اسی کی تعمیل ہونی چاہیے، عام طبائع پر آپ کو قیاس کرنا مناسب نہیں ہے۔الغرض غلبۂ محبّت اور خیر خواہی میں دوا پلادینے کی رائے پر عمل کیا گیا، لیکن حضورﷺ کو افاقہ ہوا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو فوراً بلاؤ جنھوں نے ہمیں دوا پلائی تھی اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فوراً وہی دو ا ان لوگوں کو پلاؤ، ورنہ اندیشہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کسی سزا میں مبتلا فرمادیں۔ حضرت والا نے فرمایا کہ حدیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو بہ نیت خیر خواہی بھی اگر کسی نے تکلیف پہنچادی تو اس کے لیے بھی یہ خطرناک صورت ہے(پھر جو لوگ اللہ والوں کی باتیں افادۂ عام کی غرض سے ان کی آڈیو یا ویڈیوبغیر اجازت بناتے ہیں، وہ کیوں کر اس سے بچ سکتے ہیں)۔۔۔اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک حلیم ہے، لاکھوں کفر اور شرک کے باوجود ان کی رحمتِ عا مہ کفار اور مشرکین کو رزق پہنچاتی ہے، لیکن جب ان کے اولیاء کو کوئی اذیت پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب فوراً جوش میں آجاتا ہے اور اس کو فوراً رُسوا فرمادیتے ہیں۔حدیث شریف میں وارد ہے: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔(بخاری) جو میرے ولی سے عداوت رکھے میں اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔(ماخوذ از معرفتِ الٰہیہ)

اس لیے جو علما ڈیجیٹل تصویر کی بابت حرمت کے قائل ہیں، ان کے علم و اجازت کے بغیر ان کی تصویر لینے میں مندرجۂ ذیل کئی گناہ شمار ہوں گے:۱تصویر کشی کا گناہ۲ بلا اجازت کسی کی باتیں اور عمل کو اس طرح نقل کرنے کا گناہ، جس سے اس کو تکلیف ہوتی ہے۳ اہل اللہ کو ایذا پہنچانے کا گناہ۔
۔۔۔جاری۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here