بوڑھے والدین کو روزی کمانے پر مجبور کرنا

بوڑھے والدین کو روزی کمانے پر مجبور کرنا‘ حرماں نصیبی نہیں تو اور کیا؟
ندیم احمد انصاری

اس دورِ مادیت میں احسان فراموشی اس قدر عام ہے کہ لوگ سگے ماں باپ کے احسانات کو بھی فراموش کرنے سے نہیں چوکتے۔جو ماں باپ اپنی تمام اولاد کی کفالت کی ذمے داری بہ خوشی اٹھاتے ہیں، بڑھاپے میں ان کی ذمے داری اٹھانا تمام اولاد کے لیے مل کر بھی ایک مشکل کام تصور کیا جانے لگا ہے۔ وہ بچے جو معصوم بچپن میں ماں کے لیے آپس میں ’میری ماں، میری ماں‘ کہہ کر جھگڑتے تھے، وہی سیانے ہو کر ’تیری ماں، تیری ماں‘ کہہ کر جھگڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ احسان فراموش اپنی اولاد کے لیے تو جان نچھاور کرتے ہیں، لیکن خود جن کی اولاد ہیں، انھیں ذرا خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس اولاد کے سامنے وہ یہ قبیح فعل و عمل انجام دے رہے ہیں، وہ آگے چل کر خود ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ اس لیے کہ دنیا تو صدائے بازگشت کی طرح ہے، جیسی کہے، ویسی سنے!

ہم نے دیکھا کہ بعض مجبور و لاچار بوڑھے والدین اولاد سے تنگ آکر ڈھلتی عمر میں روزی کمانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں، جب کہ ان کے اعضا و قویٰ جواب چکے ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں انھیں اپنی ہڈیوں کا بوجھ لے کر چلنا دشوار ہوتا ہے، اُنھیں بھاری بھرکم سودا سُلف لانے بلکہ روزی کے لیے بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ان کی جوان اولاد دنیا کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہے اور بوڑھے والدین محنت کشی پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر دل چاہا کہ اس مسئلے کو شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں مختصر طور پر پیش کر دیا جائے۔ اگر اللہ کا ایک بندہ بھی اس سے سبق حاصل کرلے، تو ہماری محنت وصول ہو جائے گی۔ان شاء اللہ

سورۂ لقمان میں والدین کا حق بیان کرتے ہوئے ارشادِ ربانی ہے کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے، چناں چہ ارشاد ہے:وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم،فلَاَ تْطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً۔ (لقمان) یعنی دین میںتو تم ان کا کہنا نہ مانو مگر دنیا کے کاموں میں مثلاً ان کی جسمانی خدمت یا مالی اخراجات وغیرہ، اس میں کمی نہ ہونے دو، الخ۔(معارف القرآن)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسَبہ وَان وَّلَدَہٗ مِنْ کَسَبہٖ۔ بلاشبہ سب سے پاکیزہ چیز وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی سے ہی ہے، لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ۔(ابوداؤد،ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)نیز ایک حدیث میں رسول اللہﷺنے ایک صحابیؓکو ارشاد فرمایا:أنت و مالک لابیک۔تم اور تمھارا مال (دونوں) تمھارے والد کے ہیں۔(ابوداؤد)اسی بنا پرفقہاء نے لکھا ہے:ویجبر الولد الموسر علی نفقۃ الأبوین المعسرین، مسلمین کانا أو ذمین، قدراً علی الکسب أو لم یقدراً۔ مال دار بیٹے کو اپنے محتاج والدین کو نفقہ دینے کے لیے مجبور کیا جائے گا، خواہ دونوں مسلمان ہوں یا ذمی ہوں، خواہ دونوں کمائی کرنے پر قادر ہوں یا قادر نہ ہوں۔(ہندیہ)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ بیوی کے نفقے کے سوا اور اہلِ قرابت کا نفقہ مَرد کے ذمّے اس وقت واجب ہوتا ہے، جب کہ وہ اس قدر مال کا مالک ہو جس سے صدقۂ فطر (واجب)ہوتا ہے اور والدین بھی اس حکم میں داخل ہیں۔۔۔معلوم ہوا جب تک مالِ مذکور مرد کے پاس نہ ہو والدین کا نفقہ (ضروری خرچ) واجب نہ ہوگا۔اس تقریر سے یہ غرض نہیں کہ انسان والدین سے بے رُخی اور ان کے اداے حقوق میں کوتاہی اور ان کی احسان فراموشی کرے کہ یہ توبہت بُری بات ہے بلکہ غرض اس تمام تقریر سے یہ ہے کہ مبالغہ رفع کر دیا جاوے، وہ حقوق بھی بیان ہو جاویں جو واجب ہیں اور وہ بھی جو غیر ضروری اور مستحب یا مباح ہیں۔ والدین ربِّ مجازی ہیں، ان کا لحاظ اور بڑی اطاعت کرنی چاہیے۔۔۔صورتِ مذکورہ میں مستحبِ مؤکدہ ہے کہ اگر کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو باوجود اس قدر مال نہ ہونے کے بھی ان کی خدمت کرے، اگرچہ خود کو تکلیف ہو۔(ازالۃ الرین عن حقوق الوالدین)

معلوم ہوا اگر کوئی شخص بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا لیکن اتنا کمزور نہیں ہے کہ کسبِ معاش نہ کر سکے، کسی قدر مشقت کے ساتھ ہی سہی، وہ کما کر خود اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے تو اس کے لیے تگ و دو کرنا اور کسی پر بوجھ نہ بننا ہی مناسب ہے، لیکن ایسے شخص کو اس کی اولاد وغیرہ کسبِ معاش پر مجبور کریں تو یہ ان کے لیے بڑی حرماں نصیبی اور غیر درست بات ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا بھی یہی خیال ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں:باپ اگر محتاج ہو اور کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن نہ کماتا ہو، جب بھی اس کا نفقہ بیٹے کے ذمّے واجب ہے، وہ اپنے باپ کو کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔(قاموس الفقہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here