مولانا ندیم احمد انصاری
تبلیغ کا صحیح مطلب
فرمایا: بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس پہنچا دینے کا نام تبلیغ ہے، یہ بڑی غلط فہمی ہے۔ تبلیغ یہ ہے کہ اپنی صلاحیت اور استعداد کی حد تک لوگوں کو دین کی بات اس طرح پہنچائی جائے، جس طرح پہنچانے سے لوگوں کے ماننے کی امید ہو۔ انبیا علیہم السلام یہی تبلیغ لائے ہیں۔
تبلیغی جماعتوں کے نکلنے کا مقصد صرف دوسروں کو پہنچانا نہیں
فرمایا: ہماری اس دینی دعوت میں کام کرنے والے سب لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دینی چاہیے کہ تبلیغی جماعتوں کے نکلنے کا مقصد صرف دوسروں کو پہنچانا اور بتانا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے سے اپنی اصلاح اور اپنی تعلیم و تربیت بھی مقصود ہے، لہٰذا نکلنے کے زمانے میں علم و ذکر میں مشغولیت کا بہت زیادہ اہتمام کیا جائے۔ علمِ دین اور ذکر اللہ کے اہتمام کے بغیر نکلنا کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ علم و ذکر میں مشغولیت اس راہ کے اپنے بڑوں سے وابستگی رکھتے ہوئے اور ان کے زیرِ ہدایت و نگرانی ہو۔ انبیا علیہم السلام کا علم و ذکر اللہ تعالیٰ کے ذیرِ ہدایت تھا اور صحابۂ کرامؓ حضور ﷺ سے علم و ذکر لیتے تھے اور حضور ﷺ ان کی پوری پوری نگرانی فرماتے تھے۔ اسی طرح ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے بڑوں سے علم و ذکر لیا اور ان کی نگرانی اور رہنمائی میں تکمیل کی۔ ایسے ہی آج بھی ہم اپنے بڑوں کی نگرانی کے محتاج ہیں، ورنہ شیطان کے جال میں پھنس جانے کا بڑا اندیشہ ہے۔
اس تحریک کا خاص مقصد: اللہ کے وعدوں پر یقین کو مضبوط کرنا
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں، بلا شبہ وہ بالکل یقینی ہیں اور آدمی اپنی سمجھ بوجھ اور اپنے تجربات کی روشنی میں جو کچھ سوچتا ہے اور جو منصوبے قایم کرتا ہے، وہ محض ظنّی اور وہمی باتیں ہیں۔ مگر آج کا عام حال یہ ہے کہ اپنے ذہنی منصوبوں اور اپنے تجویز کیے ہوئے وسائل و اسباب اور اپنی سوچی ہوئی تدابیر پر یقین و اعتماد کر کے لوگ ان کے مطابق جتنی محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں، اللہ کے وعدوں کی شرطیں پوری کر کے ان کا مستحق بننے کے لیے اتنا نہیں کرتے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خیالی اسباب پر ان کو جتنا اعتماد ہے، اتنا اللہ کے وعدوں پر نہیں ہے، اور یہ حال صرف ہمارے عوام کا ہی نہیں ہے، بلکہ سب ہی عوام و خواص – الا ماشاء اللہ- الٰہی وعدوں والے یقینی اور روشن راستے کو چھوڑ کر اپنی ظنّی اور وہمی تدبیروں ہی میں الجھے ہوئے ہیں۔ پس ہماری اس تحریک کا خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی سے اس اصولی اور بنیادی خرابی کو نکالنے کی کوشش کی جائے اور ان کی زندگیوں اور سرگرمیوں کو ظنون اور اوہام کی لائن کے بجائے الٰہی وعدوں کے یقینی راستے پر ڈالا جائے۔ انبیا علیہم السلام کا طریقہ یہی ہے اور انھوں نے اپنی امتوں کو یہی دعوت دی ہے کہ وہ اللہ کے وعدوں پر یقین کر کے اور بھروسہ کر کے ان کی شرطوں کو پورا کرنے میں اپنی ساری کوششیں صَرف کر کے ان کے مستحق بنیں۔ اللہ کے وعدوں کے بارے میں جیسا تمھارا یقین ہوگا، ویسا تمھارے ساتھ اللہ کا معاملہ ہوگا۔ حدیثِ قدسی ہے: انا عند ظنِ عبدی بی۔
تبلیغی تحریک کا ایک خاص مقصد: وحدت پیدا کرنا
فرمایا: ہماری اس تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے جذبات پر دین کے جذبے کو غالب کر کے اور اس راستے سے مقصد کی وحدت پیدا کر کے اور ’اکرامِ مسلم‘ کے اصول کو رواج دے کر پوری قوم کو اس حدیث کا مصداق بنایا جائے: المسلم کجسد واحد۔
تبلیغی تحریک کا اصل مقصد: دین کی طلب اور قدر پیدا کرنا ہے
فرمایا: ہمارے نزدیک اس وقت امت کی اصل بیماری دین کی طلب و قدر سے اُن کے دلوں کا خالی ہونا ہے۔ اگر دین کی فکر و طلب ان کے اندر پیدا ہو جائے اور دین کی اہمیت کا شعور و احساس ان کے اندر زندہ ہو جائے تو ان کی اسلامیت دیکھتے دیکھتے سرسبز ہو جائے۔ ہماری اس تحریک کا اصل مقصد اس وقت بس دین کی طلب و قدر پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے، نہ کہ صرف کلمے اور نماز وغیرہ کی تصحیح و تلقین۔
تبلیغی تحریک میں تصحیحِ نیت کا اہتمام
ہماری اس تحریک میں تصحیحِ نیت کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے کام کرنے والوں کے پیشِ نظر بس اللہ کے حکم کی اطاعت اور اس کی رضاجوئی ہونی چاہیے۔ جس قدر یہ پہلو خالص اور قوی ہوگا، اسی قدر اجر زیادہ ملے گا۔ اس لیے (کہ) یہ عام قانون ہے کہ جب دین کے لیے قربانیاں کرنے کے مصالح اور منافع کھل کر آنکھوں کے سامنے آجائیں، تو اجر گھٹ جاتا ہے، کیوں کہ پھر قدرتی طور پر وہ مصالح بھی فی الجملہ مقصود ہو جاتے ہیں۔ دیکھو فتحِ مکہ سے پہلے جانی قربانیوں کا جو اجر تھا، بعد میں وہ نہیں رہا، کیوں کہ فتحِ مکہ ہو جانے کے بعد غلبہ اور حکومت کی صورت نظروں کے سامنے آگئی۔ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ۭ(الحدید)[تم میں سے جنھوں نے (مکّے کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں، وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنھوں نے (فتحِ مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔(توضیح القرآن) ]
جماعتوں کی شکل میں گھروں سے نکلنے کی اہمیت
فرمایا: ہمارے طریقۂ کار میں دین کے واسطے جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کا خاص فایدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک ماحول میں آجاتا ہے، جس میں اس کے دینی جذبات کے نشو ونماکا بہت کچھ سامان ہوتا ہے، نیز اس سفر و ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بہ در پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنی ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے اللہ کی رحمت خاص طور سے متوجہ ہو جاتی ہے۔وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ اسی واسطے اس سفر و ہجرت کا زمانہ جس قدر طویل ہوگا، اسی قدر مفید ہوگا۔
یہ سفر قتال سے کم تر، لیکن بعض حیثیات سے اس سے بھی اعلیٰ
فرمایا: یہ سفر غزوات ہی کے سفر کے خصائص اپنے اندر رکھتا ہے اور اس لیے امید بھی ویسے ہی اجر کی ہے۔ یہ اگرچہ قتال نہیں ہے، مگر جہاد ہی کا ایک فرد ضرور ہے، جو بعض حیثیات سے اگرچہ قتال سے کم تر ہے، لیکن بعض حیثیات سے اس سے بھی اعلیٰ ہے۔ مثلاً قتال میں شفاے غیظ اور اطفاے شعلۂ غضب کی صورت بھی ہے اور یہاں اللہ کے لیے صرف کظمِ غیظ ہے اور اس کے دین کے لیے لوگوں کے قدموں میں پڑ کے اور ان کی منتیں خوشامدیں کرکے بس ذلیل ہونا ہے۔
تبلیغی کام کرنے والے علما کے ساتھ کس طرح پیش آئیں
فرمایا: اہلِ دین (علما و صلحا) کو اس کام (تبلیغی و اصلاحی) جد و جہد میں شریک کرنے اور ان کو راضی و مطمئن کرنے کی فکر زیادہ کرنی چاہیے اور جہاں ان کا اختلاف اور ناگواری معلوم ہو، وہاں ان کو معذور قرار دینے کے لیے ان کے حق میں اچھی تاویل کرنی چاہیے اور ان کی خدمتوں میں دینی استفادے اور حصولِ برکات کی نیت سے حاضر ہوتے رہنا چاہیے۔
علما و صلحا کی توجہات کی ضرورت
فرمایا: علما سے کہنا ہے کہ ان تبلیغی جماعتوں کی چلت پھرت اور محنت و کوشش سے عوام میں دین کی طرف طلب اور قدر ہی پیدا کی جا سکتی ہے اور ان کو دین سیکھنے پر آمادہ ہی کیا جا سکتا ہے، آگے دین کی تعلیم و تربیت کا کام علما و صلحا کی توجہ فرمائی ہی سے ہو سکتا ہے، اس لیے آپ حضرات کی توجہات کی بڑی ضرورت ہے۔
اجتماعیت اور مل جل کر کام کرنے کی ضرورت
فرمایا: ہمارے اس کام میں اخلاص اور صدق دلی کے ساتھ اجتماعیت اورشُوْرٰی بَیْنَھُمْ (یعنی مل جل کر اور باہمی مشورے سے کام کرنے) کی بڑی ضرورت ہے، اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے۔
تبلیغی جماعتوں کے نصاب کا ایک اہم جز: تجوید
فرمایا: تبلیغی جماعتوں کے نصابِ تعلیم کا ایک اہم جز تجوید بھی ہے۔ قرآن شریف اچھی طرح پڑھنا بڑی ضروری چیز ہے۔مَا أَذِنَ اللہ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ۔تجوید دراصل وہی تغنیّٰ بالقرآن ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو کر ہم تک پہنچی ہے۔ لیکن تجوید کی تعلیم کے لیے جتنا وقت درکار ہے، جماعت میں اتنا وقت نہیں مل سکتا، اس لیےان ایّام میں تو صرف اس کی کوشش کی جائے کہ لوگوں کو اس کی ضرورت کا احساس ہو جائے اور کچھ مناسبت ہو جائے اور پھر اس کو سیکھنے کے لیے وہ مستقل وقت صَرف کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔[بخاری شریف میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ عَن النبی ﷺ قَالَ : مَا أَذِنَ اللّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی، جتنی توجہ سے اپنے نبی کو بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (بخاری)
لمبی بات کرنا تبلیغ کے آداب کے خلاف
فرمایا: تبلیغ کے آداب میں سے یہ ہے کہ بات بہت لمبی نہ ہو اور شروع میں لوگوں سے صرف اتنے عمل کا مطالبہ کیا جائے جس کو وہ بہت مشکل اور بڑا بوجھ نہ سمجھیں۔ کبھی کبھی لمبی بات اور لمبا مطالبہ لوگوں کے اعراض کا باعث بن جاتا ہے۔
دعوت کا ایک اہم اصول
فرمایا: یہ نہایت اہم اصول ہے کہ ہر طبقے کو دعوت اُسی چیز کی دی جائے، جس کا حق اور ضروری ہونا خود بھی مانتا اور عمل میں کوتاہی کو اپنی کوتاہی سمجھتا ہو۔ جب وہ طبقہ ان چیزوں پر عمل کرنے لگے تو اگلی چیزوں کا احساس ان شاء اللہ اس میں خود بہ خود پیدا ہوگا اور ان کی ادایگی کی استعداد بھی پیدا ہوگی۔
[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]