مولانا ندیم احمد انصاری
دینی زندگی کو عام کرنے کی تحریک
فرمایا: ہماری یہ تبلیغی تحریک دینی تعلیم وتربیت پھیلانے اور دینی زندگی کو عام کرنے کی تحریک ہے، اور اس کے جو اصول ہیں‘ بس ان ہی کی رعایت اور نگہداشت میں اس کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ان اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کے جس طبقے کا جو حق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے اس کو ادا کرتے ہوئے اس دعوت کو ا س کے سامنے پیش کیاجائے۔مسلمانوں کے تین طبقے ہیں:(۱) پس ماندہ (غُربا) (۲) اہلِ وقار (۳) علماے دین۔ ان سب کے ساتھ جو معاملہ ہونا چاہیےاس کو یہ حدیث جامع ہے: من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقر کبیرنا ولم یبجل علمائنا فلیس منا۔(کذا) پس قوم میں جو چھوٹے ہوں ان کا حق (رحم و خدمت) اور جو اصحابِ وقار اور اہلِ وجاہت ہوں ان کا حق (توقیر) اور علماے دین کا حق (تعظیم) ادا کر کے ان کو یہ دعوت دی جائے: وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ ۔(البقرۃ)[یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نظر نواز ہوئی: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ۔حضرت عبادہ بن صامتؓسے مروی ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت اور عالم کا مقام نہ پہچانے۔ (مسند احمد، مستدرک حاکم۔ندیم)
یہ تحریک تجدیدِ ایمان اور تکمیلِ ایمان کی تحریک ہے
فرمایا: کسی مسلمان کو اس کی بے راہ رَوی کی وجہ سے قطعی طور سے کافر کہنا اور خلود فی النار والی تکفیر کرنا بڑا بھاری کام ہے۔ ہاں کفرٌ دونَ کفرٍ کا اصول صحیح ہے۔ تمام معاصی کفرہی کے فروع اور اس کی اولاد ہیں اور اسی طرح تمام معروفات ایمان کی آل اولاد ہیں، پس ہماری یہ تحریک درحقیقت تجدیدِ ایمان و تکمیلِ ایمان کی تحریک ہے۔
مولانا الیاسؒ کے نزدیک دینی دعوت کا اہتمام
فرمایا: دین کی دعوت کا اہتمام میرے نزدیک اس وقت اتنا ضروری ہے کہ اگر ایک شخص نماز میں مشغول ہو اور ایک نیا آدمی آئے اور واپس جانے لگے اور پھر اس کے ہاتھ آنے کی توقع نہ ہو، تو میرے نزدیک نماز کو درمیان میں توڑ کے اس سے دینی بات کر لینی چاہیے اور اس سے بات کر کے یا اس کو روک کے اپنی نماز پھر سے پڑھنی چاہیے۔
میں جو کچھ کہوں اسے قرآن و سنت پر پیش کرو
اسی سلسلے میں فرمایا: میری حیثیت ایک عام مومن سے اونچی نہ سمجھی جائے، صرف میرے کہنے پر عمل کرنا بددینی ہے۔ میں جو کچھ کہوں اس کو کتاب و سنت پر پیش کر کے اور خود غور و فکر کر کے اپنی ذمّے داری پر عمل کرو، میں تو بس مشورہ دیتا ہوں۔فرمایا: حضرت عمرؓ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ ’تم نے میرے سر بہت بڑی ذمّے داری ڈال دی ہے، تم سب میرے اعمال کی نگرانی کیا کرو‘۔ میری بھی میرے دوستوں سے بڑے اصرار اور الحاح سے یہ درخواست ہے کہ وہ میری نگرانی کریں، جہاں غلطی کروں وہاں ٹوکیں اور میرے رشد و ہدایت کے لیے دعائیں بھی کریں۔
تبلیغی کام کی صحیح ترتیب
فرمایا: ہمارے اس کام کی صحیح ترتیب تو یہی ہے کہ پہلے قریب قریب جایا جائے اور اپنے ماحول میں کام کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے، مثلاً یہاں سے جماعتیں پہلے کرنال پانی پت وغیرہ جائیں، پھر وہاں سے پنجاب اور ریاست بہاولپور کے علاقوں میں کام کرتی ہوئے سندھ جائیں۔ لیکن کبھی کبھی کارکنوں میں عزم اور پختگیِ کار پیدا کرنے کے لیے ابتداء ً دور دور بھیج دیا جاتا ہے، الخ۔
اس کام میں پھیلاؤ سے زیادہ رسوخ اہم ہے
فرمایا: ہمارے اس کام میں پھیلاؤ سے زیادہ رسوخ اہم ہے، لیکن اس کام کا طریقہ ایسا ہے کہ رسوخ کے ساتھ ہی پھیلاؤ ہوتا جائے گا، کیوں کہ رسوخ بغیر اس کے پیدا ہی نہیں ہوگا کہ اس دعوت کو لے کر شہروں شہروں اور مُلکوں مُلکوں پھرا جائے۔
لا الٰہ الا اللہ کا مقصد اور ہماری تحریک کی بنیاد
مادّی منافع کے لیے دشمنانِ اسلام کا آلۂ کار بننے والے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم ان میں شکم پرستی اور غرض پرستی کے بجائے خدا پرستی کا جذبہ پیدا کر سکوگے تو پھر وہ پیٹ اور دوسری اغراض کی خاطر دشمنوں کے آلۂ کار کیوں بنیں گے؟ جذبات اور دل کا رخ بدلے بغیر زندگی کے اشغال بدلوانے کی کوشش غلط ہے، صحیح طریقہ یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف پھیر دو، پھر ان کی پوری زندگی اللہ کے حکموں کے ماتحت ہو جائے گی۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہی مقصد ہے، اور ہماری تحریک کی یہی بنیاد ہے۔
آزادرَوی اور خودرائی نہ ہو
فرمایا: اس سلسلے کا ایک اصول یہ ہے کہ آزادروی اور خودرائی نہ ہو، بلکہ اپنے کو ان بڑوں کے مشوروں کا پابند رکھو جن پر دین کے بارے میں ان اکابر مرحومین نے اعتماد ظاہر کیا، جن کا اللہ کے ساتھ خاص تعلق معلوم و مسلّم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابۂ کرامؓکا عام معیار یہی تھا کہ وہ اُنھی اکابر پر زیادہ اعتماد کرتے تھے، جن پر حضورﷺ خاص اعتماد فرماتے تھے۔ اور پھر بعد میں وہ حضرات زیادہ قابلِ اعتماد سمجھے گئے جن پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اعتماد فرمایا تھا۔ دین میں اعتماد کے لیے بہت تیقّظ کے ساتھ انتخاب ضروری ہے، ورنہ بڑی گمراہیوں کا بھی خطرہ ہے۔
ہمارے کام کرنے والوں کو استغفار کی کثرت کرنی چاہیے
فرمایا: کسی کام میں اشتغال اس کے علاوہ بہت سی چیزوں سے اعراض کو مستلزم ہوتا ہے، یعنی جب اشتغال فی شیئ ہوگا تو اشتغال عن اشیاءٍ ضرور ہوگا۔ اور پھر جس درجے کا اشتغال فی شیئ ہوگا تو دوسری چیزوں کے اہتمام میں اسی درجے کی کمی بھی ہوگی۔ شریعت میں جو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر اچھے سے اچھے کام کے ختم پر بھی استغفار کیا جائے، میرے نزدیک اس میں ایک راز یہ بھی ہے کہ شاید اس اچھے کام میں مشغولی اور انہماک کی وجہ سے کسی دوسرے امر کی تعمیل میں کوتاہی ہو گئی ہو، خاص کر جب کسی کام کی لگن میں دل لگ جاتا ہے اور دل و دماغ پر وہ کام چھا جاتا ہے، تو پھر اس کے ما سوا دوسرے کاموں میں بسا اوقات تقصیر ہو جاتی ہے، اس لیے ہمارے اس کام میں لگنے والوں کو خصوصاً کام کے زمانے میں اور کام کے خاتمے پر استغفار کی کثرت اپنے اوپر لازم کر لینی چاہیے۔
اعتراض اور قبولیت کے زمانے میں کیا کریں؟
ایک صحبت میں فرمایا: ہمارے کارکن اس بات کو مضبوطی سے یاد رکھیں کہ اگر ان کی دعوت و تبلیغ کہیں قبول نہ کی جائے اور الٹا ان کو برا بھلا کہا جائے، الزامات لگائے جائیں، تو وہ مایوس اور ملول نہ ہوں، اور ایسے موقع پر یہ یاد کر لیں کہ یہ انبیا علیہم السلام اور بالخصوص سیدالانبیاء والمرسلین ﷺ کی خاص سنت اور وراثت ہے، راہِ خدا میں ذلیل ہونا ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتا ہے؟ اور جہاں ان کا استقبال، اعزاز و اکرام سے کیا جائے، ان کی دعوت و تبلیغ کی قدر کی جائے اور طلب کے ساتھ ان کی باتیں سنی جائیں، تو اس کو اللہ پاک کا فقط انعام سمجھیں اور ہرگز اس کی ناقدری نہ کریں، ان طالبوں کی خدمت اور تعلیم کو اللہ کے اس احسان کا خاص شکریہ سمجھیں، اگرچہ یہ چھوٹے سے چھوٹے طبقے کے لوگ ہوں۔ قرآن پاک کی آیات: عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓاَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰىمیں ہم کو یہی سبق دیا گیا ہے۔ ہاں اس صورت میں اپنے نفس کے فریب سے بھی ڈرتے رہیں، نفس اس مقبولیت و مطلوبیت کو اپنا کمال نہ سمجھنے لگے، نیز اس میں ’پیر پرستی‘ کے فتنے کا بھی سخت اندیشہ ہے، لہٰذا اس سے خاص طور سے خبردار رہیں۔
www.afif.in