ندیم احمد انصاری کے فکر انگیز صحافتی مضامین کے دو اہم انتخاب: ’رشحاتِ ابنِ یامین‘ اور ’دین و دنیا‘

 

 

 

 

تعارف و تبصرہ؍ شکیل رشید

ندیم احمد انصاری کا نام نہ میرے لیے محتاجِ تعارف ہے اور نہ ہی اردو کی کتابیں پڑھنے والوں کے لیے۔ موصوف ایک اچھے کالم نگار، ایک اچھے مضمون نگار اور ایک بہترین شاعر ہیں۔ الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اور ایک بہت ہی اچھے عالمِ دین بھی۔ انھوں نے ساتھ ہی ساتھ ممبئی یونیورسٹی سے جدید تعلیم بھی حاصل کی ہے ۔ اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ ندیم احمد انصاری کو ، جنھیں لوگ مولانا ندیم احمد انصاری کے نام سے بھی جانتے ہیں، ’دین اور دنیا‘ کے معاملات کا خوب اندازہ اور شعور ہے، وہ حالاتِ حاضرہ پر گہری نظربھی رکھتے ہیں اوران کے تجزئے کا مکمل شعور بھی انھیں حاصل ہے ، تو بالکل درست ہوگا۔ ندیم احمد انصاری چونکہ ’ ممبئی اردو نیوز ‘ کے مستقل کالمنسٹ ہیں ، ان کے کالم کا عنوان ’دین و دنیا‘ ہی ہے ، لہٰذا میرا یہ کہنا کہ یہ نام میرے لیے محتاجِ تعارف نہیں ہے ، غلط نہیں ہے ۔ اور میرا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ اردو کتابیں پڑھنے والوں کے لیے بھی یہ نام انجانا نہیں ہے کیونکہ اب تک ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، دینی و مذہبی بھی اور ادبی بھی ، اوریہ کتابیں مقبول بھی ہوئی ہیں۔

اس وقت میرے سامنے ان کی دو کتابیں ہیں، ’رشحاتِ ابنِ یامین ‘ اور ’دین و دنیا ‘ ، یہ دونوں ہی کتابیں ان کے اُن کالموں کا انتخاب ہیں جو انھوں نے مختلف اخباروں ، جریدوں اور پرچوں کے لیے تحریر کیے تھے ( ان سے پہلے صحافتی مضامین کا ایک مجموعہ ’رشحاتِ ندیم ‘ کے نام سے شائع ہوا ہے) ۔ چونکہ زیادہ تر مضامین ’ ممبئی اردو نیوز ‘ میں شائع ہو چکے ہیں ، اس لیے میری نظر سے گزر چکے ہیں ، لیکن انھیں دوبارہ کتابی صورت میں پڑھتے ہوئے ایک نیا پن محسوس ہوا ، یوں لگا جیسے ندیم احمد انصاری نے جو باتیں ، بالخصوص حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ، کہہ دی ہیں یا جن امکانات یا خدشات کی طرف بہت پہلے اشارہ کیا تھا ، وہ سچ ہیں۔

پہلی کتاب ’رشحاتِ ابن یامین ‘ ۳۲۰ صفحات پر مشتمل ہے (قیمت ۴۰۰ روپیہ) یہ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان لکھے گئے کالموں اور اخباری ( یا صحافتی ) مضامین کا انتخاب ہے، جنھیں چھ عنوانات کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ عنوانات ہیں ’دینیات‘، ’علمیات ‘، ’خصوصی رات و دن‘، ’متفرقات‘، ’شخصیات ‘ اور ’حالاتِ حاضرہ‘ ۔میں بس چند ایک ایک مضمون پر بات کروں گا ۔ ’ دینیات ‘ کے تحت جو باب ہے اس میں ۱۷ مضامین شامل ہیں ، ان کے موضوعات متنوع ہیں ، مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی افضلیت پراگر ایک مضمون ہے تو دوسرا عشرۂ مبشرہ پر ، پھر سندِ حدیث کی ضرورت اور اہمیت پر ایک اہم تحریر ہے ، اور ایک مضمون میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ نیابت اور امامت نااہل کے سپرد کرنا کیسا ہے ۔ تہجد نماز پر ایک مضمون کے ساتھ ایک مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کو کھانے پینے کا ذریعہ نہ بنایا جائے ۔ مسجد میں اگر زائد قرآن ہوں تو ان کا کیا کیا جائے ؟ اس سوال کے جواب پر ایک تحریر ہے ۔ حج ، استخارہ ، عقیقہ ، دست بوسی ، صوتی آلودگی اور اسلامی ہدایات لاؤڈاسپیکر پر فتاوے ، خدا سے غافل کرنے والی بے فائدہ چیزوں کی خریداری اور میوزک اور گانے بجانے پر مضامین ہیں ۔ میں صوتی آلودگی سے متعلق مضمون پر بات کرنا چاہوں گا ۔ آج ساری دنیا کا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ لوگ، شور مچاتے کارخانوں ، گاڑیوں کی آوازوں ، ڈی جےکے کان پھاڑنے والے شور ، جلسوں و مشاعروں کی چیخ پکار اور لاؤڈاسپیکر پر دی جانے والی اذانوں سے ہونے والی پریشانیوں کی ، عام طور پر شکایات کرتے ہیں ۔ مولانا لکھتے ہیں ’بلا وجہ شور مچانے کو شریعت ناپسندگی کی نظر سے دیکھتی ہے ‘۔ اذان کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ آج ’لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت لازمی ہو گئی ہے ، اس لیےاذان کے لیے اس کا محتاط استعمال نہ صرف درست بلکہ مستحسن ہے ۔ ‘ وہ ڈی جےکے معاشرے میں بے جا استعمال کو ’واقعی تکلیف دہ ‘ قرار دیتے ہیں ۔ آج ضرورت ہے کہ ہم صوتی آلودگی کے نقصانات کو سمجھیں اور اس سے باز آجائیں ، لیکن ہم اس کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں ، حالانکہ ہمارے علماء اور دانشور حضرات بار بار ہمیں اس کی تلقین کرتے ہیں ۔ آگے کے ابواب میں بہترین مضامین ہیں ، مثلاً ایک مضمون ہے’ علمِ دین کی قدر و قیمت اور اس کی فرضیت ‘ ، یہ بڑی ہی اہم تحریر ہے ۔ ایک اہم مضمون ہے ’ علم و ہدایت اور شرعی مسائل چھپانا‘ ۔ نئے سال کی تقریبات اور اسے منانے کے بارے میں دو مضامین ہیں جن میں مستند حوالوں سے سمجھایا گیا ہے کہ ’اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے ۔‘ دس شخصیات ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، امام اعظم ابو حنیفہ ، حضرت رابعہ بصریہ ، امام غزالی، خواجہ معین الدین چشتی ، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور شیخ یونس جون پوری پر ، پرمغز مضامین ہیں۔حالاتِ حاضرہ کے عنوان سے ’ وندے ماترم ‘، ’جمہوریت‘، ’بھارت ماتا کی جئے ‘، کیش لیس سوسائٹی ‘، ای وی ایم ‘ اور حج سبسڈی ‘ کے موضوعات پر ایسی تحریریں ہیں جو آگے بڑھنے کی نئی راہیں دکھاتی ہیں ۔

ایک مضمون کا خاص طور پر تذکرہ کروں گا ’دیوبندی بریلوی ہی نہیں ، تمام مسلمان متحد ہوں!‘ یہ مضمون مولانا توقیر رضاخان بریلوی کے دورۂ دیوبند کے تناظر میں لکھا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’ملت کے لیے تمام مسالک متحد ہوں تاکہ شرپسندوں کا غرور ٹوٹے اور بے قصوروں کو ظلم و جبر سے نجات ملے ۔‘ کیا آج کے حالات میں واقعی ہم سب کو متحد ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟

دوسری کتاب ’دین و دنیا ‘ میں سات موضوعات، ’سماجیات ‘ ، ’سیاسیات ‘، ’فکریات ‘، ’ہدایات ‘، ’عبادات‘ ، ’واقعات ‘ اور متفرقات ‘ پر کُل ۴۵ مضامین شامل ہیں ۔ سماجیات کے باب میں شادی، نکاح، منگنی، حلالہ، طلاق، بوڑھے والدین، حقوق، تہمت اور عورتوں کی اسلام میں حیثیت پر منتخب تحریریں ہیں، ان کے ذریعے مصنف نے سماجی بیداری لانے کی ایک سعی کی ہے ، اس میں ہم سب کو چاہیے کہ ان کا ساتھ دیں ۔

سیاسیات کے باب میں ووٹ، سیاسی شعور کی بیداری، امیر کی اطاعت پر مضامین ہیں، حوالوں نے انہیں مدلل بنا دیا ہے۔ موبائل انٹرنیٹ، فٹنس اور ورزش وغیرہ کو بھی موضوع بنایا گیا ہے ۔ ہدایات کے باب میں وعدہ خلافی، لعنت، استغفار، دعا کی عدمِ قبولیت پر مضامین ہیں۔ ایک مضمون بڑاہی اہم ہے ’اللہ کے بندوں کے کام آئیں ۔‘
آگے کے ابواب میں عبادات مثلاً قربانی، قنوتِ نازلہ ، آیتِ کریمہ ، حج ، نحوست اور بدشگونی وغیرہ کو مصنف نے اپنا موضوع بنایا ہے ، ان کے فضیلتیں بتائی اور جن باتوں میں نقصانات ہیں، انھیں اجاگر کیا ہے ۔ یہ کتاب بھی ۳۲۰ صفحات پر مشتمل ہے؟ ( قیمت ۴۰۰ روپیہ )
پہلی کتاب کا انتساب مصنف نے ’والد ماجد جناب محمد یامین انصاری صاحب ساجدؔ رحمۃ اللہ علیہ ، نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ کے نام‘ کیا ہے ۔ دوسری کتاب کا انتساب ’سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم، سابق صدر و حال شیخ الحدیث تعلیم الدین ، ڈابھیل ، گجرات کے نام ‘ کیا ہے ۔ دونوں ہی کتابوں میں حضرت مفتی احمد خانپوری کے دعائیہ کلمات ہیں ’اللہ تعالیٰ مولانا ندیم احمد انصاری صاحب کے اس مجموعۂ مضامین کو حسنِ قبول عطا فرما کر اپنے بندوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے ۔‘ پہلی کتاب میں حضرت مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری صاحب کی تقریظ ہے ، ان کا کہنا ہے ’پوری کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔‘ دوسری کتاب میں حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد شکیب قاسمی صاحب کی تقریظ ہے ، وہ لکھتے ہیں ’اسلوبِ بیان نہایت سہل اور سادہ ہے ۔ نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں مدلل و تحقیقی گفتگو کتاب کی افادیت دو چند کرتی ہے ۔‘

دونوں کتابوں کے پیش لفظ میں مصنف نے اللہ تعالیٰ سے شرفِ قبولیت کی دعا مانگی ہے ۔ اللہ ان کی دعا قبول فرمائے، آمین ۔

کتابیں خوب صورت شائع ہوئی ہیں ،حروف روشن ہیں، آسانی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔

ایک بات مجھے کھٹکی، کئی جگہ الفاظ کے املے تبدیل ہیں مثلاً فائدہ کو ’فایدہ ‘ اور شائع کو ’شایع‘ لکھا گیا ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہ کتابیں اچھی ہیں اس لیے لوگ ان کتابوں کو ضرور پڑھیں، یہ سماجی، مذہبی، تعلیمی، سیاسی بیداری لاتی اور حالاتِ حاضرہ کے تئیں مثبت ذہن سازی کرتی ہیں۔

کتابیں مصنف کے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here