تراویح سے متعلق چند ہدایات
قرآن شریف دیکھ کر پڑھنا
ز جہاں سعودی عرب میں تراویح میں امام صاحب قرآن پاک دیکھ کر تلاوت کرتے ہیں، تو اس طرح نماز ہو جاتی ہے؟ اور پیچھے پڑھنے والے کا کیا حکم ہے؟
ل احناف کے نزدیک یہ نماز درست نہیں۔اس لیے حنفی مقتدی کو چاہیے کہ ایسے امام کی اقتدا نہ کرے۔
قرآن شریف دیکھ کر لقمہ دینا
ز ایک عالم صاحب نے یہ بھی بتایا کہ حرم شریف میں تراویح کی نماز میں امام صاحب تو قرآن مجید حفظ پڑھتے ہیں لیکن سامع میں سے بعض حضرات قرآن مجید میں دیکھ کر لقمہ دیتے ہیں۔ اگر امام صاحب ان کا لقمہ صحیح ہونے کی بنا پر لے لیں تو اگر حنفی مقتدی (باوجود جاننے کے کہ قرآن مجید میں دیکھ کر لقمہ دیا جاتا ہے اور امام صاحب لے لیتے ہیں) نماز پڑھے، تو اس کی نماز ہوجائے گی؟ اور اگر حنفی مقتدی نہ جانے اس صورت میں اس کی پڑھی ہوئی نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ل اگر لقمہ دینے والے نے قرآن میں دیکھ کر لقمہ دیا اورامام نے وہ لقمہ قبول کیا اور یہ چیز حنفی مقتدی کو یقینی طور معلوم ہوئی، تب تو تراویح کی ان دو رکعتوں کا اعادہ کرے، ورنہ نماز ہوگئی۔ صرف احتمال کی وجہ سے اعادے کا حکم نہیں لگائیںگے۔
۲۸/اور ۲۹/کی تراویح میں کون سی سورتیں
ز ۲۸/اور ۲۹/رمضان کی صلوٰۃ التراویح میں قرآنِ کریم کی کئی سورتوں کی تلاوت کرنا، بلکہ سورۃ الفیل سے سورۃ الناس تک کی تلاوت کرنا سنت ہے؟
لکوئی سورت متعین نہیں ہے جو چاہے پڑھ سکتا ہے۔ وقیل: یصلیھا ویقرأ فیھا ما شاء ذکرہ في الذخیرة. البتہ سورۂ فیل تا آخر کا پڑھنا مستحسن ہے۔وبعضھم سورة الفیل أي البداءة منھا ثم یعیدھا وھذا أحسن لئلا یشتغل قلبه بعدد الرکعات، قال في الحلیة: وعلی ھذا استقر عمل أئمة اکثر المساجد في دیارنا۔ الخ (شامی۱/ ۵۲۳)
تراویح اور وتر کے درمیان دعا کرنا
ز بعد التراویح قبل الوتر عربی ادعیہ کے ساتھ اردو ادعیہ بھی کر سکتے ہیں؟ اور فی زماننا دو تین’’ربنا‘‘ پڑھ کر دعا ختم کر دیتے ہیں تو کیا کچھ لمبی دعا کرسکتے ہیں یانہیں؟
ل جیسے فرائض کے بعد دعا ہوتی ہے، ایسے ہی اس میں بھی کیا جائے، اس لیے کہ دلیل دونوں کی ایک ہے۔
ختمِ قرآن کے بعد کیاپڑھناافضل ہے؟
زتراویح میں ختمِ قرآن کے بعد بقیہ ایامِ تراویح میں سورۂ رحمن پڑھنا- اس طرح کہ چند آیتیں ہر رکعت میں پڑھی جائیں- افضل ہے یامکمل سورت ہر رکعت میں، مثلاً الم تر کیفسے آخر قرآن تک؟
لہر رکعت میں مکمل سورت پڑھنا افضل ہے اور اگر ہر رکعت میں چند آیتیں پڑھ لیں، تو یہ بھی بلا کراہت جائز ہے۔(کبیری ص۴۹۳ و۴۰۷) ٭٭