مفتی ندیم احمد انصاری
خودسپردگی یعنی اپنے تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا نام ’تفویض‘ ہے کہ ربِ ذوالجلال جو چاہیں جس طرح چاہیں تصرّف کریں۔ بندہ اپنی طرف سے کوئی بھی حالت یا نظام تجویز ہی نہ کرے، یہی کامل عبدیت اور ہمہ قسم کے غموم و ہموم سے تحفظ اور بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ ترکِ تدبیر کا نام تفویض نہیں، نہ تفویض تدبیر کے منافی ہے۔ جن امور میں تدبیر کو دخل نہیں ان میں تو ابتدا ہی سے تفویض کو اختیار کرنا چاہیے، جن امور میں تدبیر کو دخل ہے ان میں سنت و طاعت سمجھ کر جائز تدبیر کے ساتھ نتائج کی فکر کیے بغیر کامیابی و ناکامی ہر دو حالت میں رب سے راضی رہ کر تفویض کا دامن تھامے رکھنا ضروری ہے۔ غیراختیاری امور میں تجویز سے جو کلفت و پریشانی ہوتی ہے، اس سے نجات تفویض کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حقیقی تفویض یہ ہے کہ راحت حاصل کرنا اور تکلیف دور کرنا بھی پیشِ نظر نہ ہو،محض رضاےالٰہی مقصود ہو، آقا کی خوش نودی کے سامنے غلام کی راحت و کلفت اور منفعت و مصلحت کی کوئی حیثیت نہیں۔ تفویض کبھی ثواب کے استحضار سے حاصل ہو جاتی ہے اور کبھی محض رضاےحق کے خیال سے، ثانی الذکر اصل مقصود ہے اور یہی تفویض کا اعلیٰ درجہ ہے، اس میں محبوب کا حق زیادہ ہے، اپنی تجویز کو خدا کی تجویز میں فنا کر دینے سے اس میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ابتدا میں یہ کیفیت بہ تکلف حاصل ہوتی ہے، خدا کی حکمت و قدرت پر نظر رکھنے سے یہ امر طبعی ہو جاتا ہے۔
تفویض اور تجویز
ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ آسمانوں اور زمین میں جتنے پوشیدہ بھید ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں اور اسی کی طرف سارے معاملات لوٹائے جائیں گے۔ لہٰذا اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسا رکھو، اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، تمھارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں ہے۔ [ہود] ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالاں کہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالاں کہ وہ تمھارے حق میں بُری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔ [البقرۃ]
علامہ طبریؒ اور علامہ ابنِ کثیرؒ کا فرامین
علامہ طبریؒ کہتے ہیں:﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، اپنے معاملے کو اللہ کے ذمے چھوڑتا ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں؛ کیوں کہ وہ توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔وقوله: ﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللّهِ﴾ يقول:يقول: وأسلم أمري إلى اللہ، وأجعله إليه وأتوكل عليه، فإنه الكافي مَنْ توكَّل عليه ” انتهى۔[تفسیرِ طبری] علامہ ابن کثیرؒکہتے ہیں:﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللّهِ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ أي: وأتوكل على الله وأستعينه۔[تفسیر ابن کثیر]
قرآن میں ایک مردِ مومن کا واقعہ
فرعون کے زمانے کے ایک مردِمومن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا: ﴿فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ﴾غرض تم عن قریب میری یہ باتیں یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے،نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو برے برے منصوبے بنا رکھے تھے اللہ نے اس (مردِ مومن) کو ان سب سے محفوظ رکھا اور فرعون کے لوگوں کو بد ترین عذاب نے آگھیرا۔ [الغافر]
تفویض کی حقیقت
﴿قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ﴾ کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! آپ جسے چاہتے ہیں اقتدار بخشتے ہیں، اور جس سے چاہتے ہیں اقتدار چھین لیتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں عزت بخشتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں رسوا کردیتے ہیں، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔[آلِ عمران]
رسول اللہ ﷺ کی نصیحت و وصیت
حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، تم کہو کہ میں نے اپنی ذات اللہ کے سپرد کی، اس کی طرف اپنا رخ کرلیا، اس کے لیے ہمہ تن یک سو ہوگیا، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، ہر مسلمان کی جان ومال دوسرے مسلمان پر حرام ہے، ہر دو مسلمان بھائی بھائی ہیں، باہم مددگار ہیں، جان لو اللہ کسی ایسے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے جو اسلام سے بہرہ مند ہونے کے بعداس سے رشتہ توڑ لے، حتی کہ وہ دوبارہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں سے نہ آملے۔ آہ! دیکھو توسہی میں تمھیں کمر سے پکڑ کر جہنم سے ہٹارہاہوں اور تم ہو کہ اس میں گرے جارہے ہو۔ آگاہ رہو، میرا رب مجھے بلانے والا ہے! آگاہ رہو، میرا رب مجھ سے سوال کرے گا: کیا تم نے میرے بندوں تک پیغام پہنچادیا؟ میں عرض کروں گا: ہاں میرے رب! میں نے ان تک آپ کا پیغام پہنچادیا ہے۔ اے لوگو! جو حاضر ہیں وہ غائب تک یہ دعوت پہنچادیں! یاد رکھو تم کو بلایاجانے والا ہے، اس حال میں کہ تمھارے منھ پر بندش ہوگی، پھر سب سے پہلے کسی کا جو عضو گویا ہوگا وہ اس کی ران اور ہتھیلی ہوگی۔ یہ تمھارا دین ہے، جہاں چلے جاؤ تمھارے لیے کافی ہوگا۔ بعثني الله بالإسلام أن تقول أسلمت نفسي لله ووجهت وجهي إليه وتخليت وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة كل مسلم على مسلم حرام أخوان نصيران لا يقبل الله من مسلم أشرك بعد ما أسلم عملا حتى يفارق المشركين إلى المسلمين، مالي آخذ بحجزكم عن النار إلا أن ربي داعني ألا وإنه سائلي هل بلغت عبادي وإني قائل رب قد بلغتهم فليبلغ شاهدكم غائبكم ثم إنكم تدعون مفدمة أفواهكم بالفدام ثم أول ما يبين عن أحدكم فخذه وكفه هذا دينكم وأينما تكن يكفيك. [کنزالعمال]
بیعت کے وقت تفویض کی ہدایت
حضرت جریرؓسے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت نبی کریمﷺ کے پاس بیعت کے لیے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اے جریراپناہاتھ بڑھاؤ! حضرت جریرؓنے عرض کیا: کس لیے ؟ آپ ﷺ نےفرمایا: اس بات کے لیے کہ تم اپنی ذات اللہ کے سپرد کر دو اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرو! حضرت جریرؓنے اجازت چاہی کہ اے اللہ کے رسول! جس کی میں استطاعت رکھوں؟ آپﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ یہ حضرت جریر ؓکی عقل مندی تھی جس کی وجہ سے ان کے بعد دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ رخصت متعین ہو گئی۔ عَنْ جَرِيْر، أَنَّہُ أَتَی النَّبِي ﷺ لیبایعہ فَقَال: مُدَّ يَدَكَ يا جَرِيْرُ! فقال: عَلَى مَه؟ قال: عَلَی أَنْ تُسْلِمَ وَجْهَكَ للّٰہِ وَالنَّصِيْحَةِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَدْرکھا جریر، و كان رجلاً عاقلاً فقال: يا رسولَ اللہِ! فيما استطعت، فكانت رخصة للناس بعده”. [طبرانی کبیر ]
ایمان کی تکمیل میں تفویض کی اہمیت
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے: ایمان کی پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو اس کا ایمان (کامل) نہیں: (۱) حکمِ الٰہی کے آگے سرِتسلیم خم کرنا (۲)قضاےالٰہی پر راضی رہنا (۳)اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینا (۴)اللہ پر توکل کرنا (۵)صدمے کی ابتدا میں صبر کرنا۔ خَمْسٌ مِنَ الْإِيْمَانِ، مَنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهِ شَيْءٌ مِنْهُنَّ فَلَا إِيْمَانَ لَهُ: التَّسْلِيْمُ لِأَمْرِ اللہِ، وَالرِّضَاءُ بِقَضَاءِ اللہِ، وَالتَّفْوِيْضُ إِلَى اللہِ، وَالتَّوَكُّلُ عَلَى اللہِ، وَالصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُوْلَى”۔ عن ابن عمر.[کنزالعمال]
اسلام کی تکمیل میں تفویض کی اہمیت
حضرت ابنِ عباسؓسے روایت ہے: اسلام یہ ہے کہ تم اپنی ذات اللہ کے سپرد کردو اور شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا شریک کوئی نہیں، اور محمدﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور نماز قایم کرو، زکوۃ ادا کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، اور اگر بیت اللہ تک جانے کی وسعت ہوتو حج کرو ، اگر تم نے یہ کام انجام دیے تو تم مسلمان ہوگئے۔الإسلامُ أنْ تُسلِمَ وَجْهَكَ للهِ عز وجلَّ، وَأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَّآ إِلٰهَ إِلَّا اللهَ وَحْدَهُ لَاشَرِيْكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، و تُقِیمُ الصَّلاَۃَ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَتَصُومُ شهر رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَیْتَ إن استطعت إليه سبيلاً، فإذا فعلت ذلك فقد أسلمت۔عن ابن عباس.[کنزالعمال]
تفویض کی برکت
حضرت ابن مسعودؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے فاقہ ہو اور پھر وہ لوگوں سے اس کو ظاہر کرتا پھرے تو ہرگز اس کی فاقہ کشی نہ جائے گی اور جو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اس کو غنا سے نواز دے گا یا پھر مر کر سب مصیبتوں سے چھٹکارا پائے گا یا پھر جلد ہی مال والا ہوجائے گا۔ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ أَوْشَكَ اللَّهُ لَهُ بِالْغِنَى إِمَّا بِمَوْتٍ عَاجِلٍ أَوْ غِنًى عَاجِلٍ”. [ابوداود]
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تفویض اور خودسپردگی کی دولت سے نوازے، آمین۔