جانور کی قربانی خلافِ رحم نہیں

جانور کی قربانی خلافِ رحم نہیں

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

عید الاضحی کا دن قریب آرہا ہے، جس میں مسلمان بحکمِ الٰہ جانوروں کی قربانیاں پیش کرتے ہیں، جس پر بعض کج فہم یا کم فہم لوگوں کی طرف سے بعض اعتراضات بھی کیے جاتے رہتے ہیں، من جملہ ان کے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا خلافِ رحم ہے۔ یہ لوگ دراصل وحی اور اس کی حقیقت سے تو واقف نہیں اس لیے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اسی لیے اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کیاکرتے ہیں، جب کہ عقل کا اپنا ایک دائرۂ کار اور ہر انسان کی عقل کا اپنا ایک دائرۂ کار ہوتا ہے، کوئی انسان اپنے اس مخصوص دائرے سے عبور نہیں کر سکتا۔طویل گفتگو کا یہ موقع نہیں، اس وقت ہم ذبحِ حیوان پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کے جوابات پیش کر رہے ہیں،جو کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒکی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقلِ سلیم نصیب فرمائے۔ آمین

بعض لوگ نفسِ ذبح (یعنی خود ذبح) ہی پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بے رحمی ہے، جانور کو تکلیف دینا ہے! ہم کہتے ہیں کہ ذبح میں ایسی تکلیف نہیں ہوتی، موتِ طبعی میں زیادہ [تکلیف ] ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہو تو جو محبوبِ حقیقی کے حکم سے ہو، وہ سب محبوب ہے، تو جانور کے ذبح کو بے رحمی بتلانا سخت غلطی ہے۔(اغلاط العوام) 

خدا تعالیٰ کو ماننے والی قومیں، خواہ وہ کوئی ہوں، اس بات کی ہرگز قائل نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ظالم ہے بلکہ خدا تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم مانتے ہیں۔اب خدا کا فضل دیکھو کہ ہوا میں باز، شکرے، گدھ، چرغ وغیرہ شکاری جانور موجود ہیں اور وہ غریب پرندوں کا گوشت ہی کھاتے ہیں، گھاس اور عمدہ سے عمدہ میوے اور اس قسم کی کوئی چیز نہیں کھاتے، پھر دیکھو آگ میں پروانے کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، پھر پانی کی طرف خیال کرو کہ اس میں کس قدر خوں خوار جانور موجود ہیں؛ گڑیال اور بڑی بڑی مچھلیاں، اود، بلاؤ وغیرہ، یہ چھوٹے چھوٹے آبی جانوروں کو کھا جاتے ہیں بلکہ بعض مچھلیاں قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تک شکار کے لیے جاتی ہیں، پھر ایک اور قدرتی نظارہ سطحِ زمین پر دیکھو کہ چیونٹی کھانے والا جانور کیسے زبان نکالے پڑا رہتا ہے، جب بہت سی چیونٹیاں اس کی زبان کی شیرینی کی وجہ سے اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں تو جھٹ زبان کھینچ کر سب کو نگل جاتا ہے۔ مکڑی مکھیوں کا شکار کرتی ہے، مکھیاں کھانے والا جانور اپنی غذا ان جانوروں کو ہی مار کر بہم پہنچاتے ہیں، بندروں کو چیتا مار کر کھاتا ہے، جنگل میں شیر بھیڑیے تیندوے کی غذا جو مقرّر ہے، وہ سب کو معلوم ہے، بلّی کس طرح چوہوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی ہے۔ اب بتلاؤ کہ اس نظارۂ عالم کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے یہ قانونِ ذبح جو عام طور پر جاری ہے یہ کسی ظلم کی بنا پر ہے، ہر گز نہیں، پھر انسان پر حیوان کے ذبح کرنے کے ظلم کا الزام کیا مطلب رکھتا ہے؟ انسان کے جوئیں پڑ جاتی ہیں یا کیڑے پڑ جاتے ہیں، کیسے بے باکی سے ان کی ہلاکت کی کوشش کی جاتی ہے، کیا اس کا نام ظلم رکھا جاتا ہے؟جب اسے ظلم نہیں کہتے اشرف(اعلیٰ) کے لیے اخس (ادنیٰ)کا قتل جائز ہے تو ذبح پر اعتراض کیوں کر ہو سکتا ہے؟بلکہ غور کرو اور حضرت ملک الموت کو دیکھو کیسے کیسے انبیاء و رسُل،بادشاہ، بچے، غریب، امیر ، سوداگر سب کو مار کر ہلاک کرتے ہیں اور [اس] دنیا سے نکال دیتے ہیں، پھر غور کرواگر ہم جانوروں کو عید الاضحی [وغیرہ] پر اس لیے ذبح نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا اور ان پر رحم ہوگا کہ وہ نہ کریں۔ پس اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ اگر جانوروں کو ذبح کرنا خلافِ رحم ہوتا تو اللہ تعالیٰ شکاری اور گوشت خوار جانوروں کو پیدا نہ کرتا، اگر ان کو ذبح نہ کیا جائے تو خود یہ بیمار ہوکر مریں گے، پس غور کرو ان کے [ایسے] مرنے میں کس قدر تکلیف لاحق ہوگی۔

قانونِ الٰہی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز بے حد بڑھنا چاہتی ہے، اگر ہر ایک برگد کے بیج حفاظت سے رکھے جائیں تو دنیا میں برگد ہی برگد ہوں اور دوسری کوئی چیز نہ ہو مگر دیکھو ہزار جانور اس کا پھل کھاتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس بڑھنے کو روکنا مرضیٔ الٰہی ہے۔اسی طرح اگر ساری گایوں کی پرورش کریں تو ایک وقت میں دنیا کی ساری زمین بھی ان کے چارے کے لیے کافی نہ ہوگی، آخر بھوک پیاس سے خود ان کو مرنا پڑے گا، جب کہ یہ نظارۂ قدرت موجود ہے تو ذبح کرنا خلافِ مرضیٔ الٰہی کیوں ہے؟(المصالح العقلیہ)

اس مسئلے کو تو ان دنوں ہندوستان کے متعصب لوگوں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ ان جانوروں کے پالنے والے ان کی کفالت سے معذور ہوکر کس طرح انھیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئےاور حکومت کی جانب سے ان کے ذبح پر پابندی لگانے سے کسانوں کا کیا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔(ندیم احمد)

پھر کوئی کہے کہ ذبح انسان بھی جائز ہو سکتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ فی نفسہ ذبح انسان کے لیے بھی عمدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہادت کو متفق اللفظ ہو کر اعلیٰ کمال مانا ہے، مگر انسان کے ذبح نہ کرنے پر اور بہت سے قوی دلائل ہیں۔[پھر جو قاعدہ اوپر بیان کیا گیا کہ ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے ، اس قاعدے کے مطابق انسان کو صرف اللہ کے لیے قربان کیا جا سکتا ہے کیوں باقی تمام تو مخلوق ہے اور انسان کو تمام مخلوق میں افضل و اشرف بنایا گیا ہے، اسی لیے اگر انسان کی قربانی ہوگی تو صرف اللہ کے لیےاور مخصوص حالات میں ہوتی بھی ہےیعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے۔نون الف]نیز انسان کے ساتھ اوروں کے بھی حقوق ہیں، کسی کی پرورش ہے، کسی کا کچھ کسی کا کچھ۔ اگر اس [انسان کو انسان کے لیے ذبح کرنے ]کا حکم دیں تو مشکلات کا ایک بڑا سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے،اس لیے قتلِ انسان مستلزمِ سزائے عرفی (سزا کو لازم کرنے والا) اور شرعی قانون میں سخت گناہ کہا گیا ہے۔ الغرض! انسان کا قتل اس لیے تجویز نہیں ہوا کہ انسان کے ساتھ بہت سے حقوق ہوتے ہیں، ان کا ضائع ہونا زیادہ دُکھوں کا موجب ہے۔ (المصالح العقلیہ بتغیر) 

بعض قومیں اس (ذبحِ حیوان) پر اعتراض کرتی ہیں، حالاں کہ جانور سب برابر ہیں اور بعض جانوروں کو وہ بھی مارتے ہیں، کوئی جوں کو مارتا ہے، کوئی کھٹمل کو، کوئی چوہے کو، کوئی سانپ بچھو کو، کیوں صاحب کیا یہ ہتیا نہیں ہے؟

لطیفہ: بعضے ہندو کمال کرتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھ سے تو نہیں مارتے بلکہ ہمارے محلّے میں چوہے چھوڑ جاتے ہیں، تاکہ ہم مار دیں۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر جانوروں کو زبح کرنا بے رحمی ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ تمھارے نزدیک حق تعالیٰ بھی رحیم ہیں یا نہیں؟ یقیناً ہیں، پھر بتلائیے کہ حق تعالیٰ بھی جانوروں کو مارتے ہیں، تو مسلمان ہی کیوں بے رحم ہیں؟ وہ تو وہی کام کرتے ہیں، جو حق تعالیٰ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ مالک ہیں، چاہے وہ خود بلا واسطہ مار دیں یا اپنے نوکر، غلام کے ہاتھ مار دیں۔ اب سوال باقی رہا کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ مسلمان خدا کے حکم سے مارتے ہیں، تو اس کا ثبوت ہم ہر وقت دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہم د لائل سے قرآن کا کلام اللہ ہونا اور رسول اللہﷺ کا برحق ہونا ہر وقت ثابت کر سکتے ہیں اور قرآن و حدیث میں حکمِ ذبح موجود ہے تو مسلمان یقیناً حکم الٰہی سے ذبح کرتے ہیں۔

تیسری بات (یعنی تیسرا جواب) یہ ہے کہ ذبح کرنے والے کو بے رحم کہنا فلسفے کے قاعدے سے بھی بالکل غلط ہے بلکہ قاعدۂ فلسفے کا مقتضا یہ ہے کہ جو لوگ ذبح نہیں کرتے وہ زیادہ بے رحم ہوتے ہیں کیوں کہ اطبّا و فلاسفہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس قوّت سے کام نہ لیا جائے وہ رفتہ رفتہ زائل ہو جاتی ہے، جیسے ترکِ جماع عِنّت کا سبب ہو جاتا ہے، اسی طرح انسان میں ایک صفت کڑھنے کی ہے، اگر اس کا کوئی سبب واقع نہ ہو تو یہ صفت زائل ہو جائے گی۔ ہندو چوں کہ ذبح نہیں کرتے اس لیے ان کی یہ صفت معطل رہتی ہے اور مسلمانوں کی یہ صفت ذبح کے وقت حرکت میں آتی ہے تو یہ باقی رہتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے، میں بقسم کہتا ہوں کہ ذابح [ذبح کرنے والے] سے زیادہ رحیم غیر ذابح [ذبح نہ کرنے والا] کبھی نہیں ہو سکتا۔اسی لیے حق تعالیٰ انسان پر مصائب نازل کرتے ہیں تاکہ اس کو اہلِ مصیبت پر رحم و شفقت بڑھے اور جس میں یہ صفت نہ ہو اس میں پیدا ہو جائے کیوں کہ جس شخص پر نزولِ مصائب نہ ہو، وہ سنگ دل ہو جاتا ہے۔ (اغلاط العوام)

ذبحِ حیوان کو لوگ خلافِ رحم بتلاتے ہیں، ایسا خیال خود حقیقت کے خلاف اور باطل ہےاور غور کیا جائے تو اس [ذبح]میں خاصیتِ ابقاے رحم کی ہے کیوں کہ ذبح کے وقت قوتِ رحم کو حرکت ہوتی ہے اور بار بار حرکت ہونے سے وہ قوّت محفوظ رہتی ہے، چناں چہ دلیل انّی اس کی یہ ہے کہ گوشت کھانے والے اور ذبح کرنے والے لوگ بہ نسبت منکرین و تارکینِ ذبح کے رحم میں زیادہ ہوتے ہیں، چناں چہ معاملات میں مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں میں رحم زیادہ ہے ہندوؤں میں نہیں اور طبّی قاعدہ ہے کہ جس قوّت کو حرکت ہوتی ہے اور اس سے کام بار بار لیا جائے [تو] وہ قوت باقی رہتی ہے، پس ذبح میں ابقاء رحم اور اس کے ترک میں افناءرحم ہے۔ (اغلاط العوام)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here