تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کو فرض کیا

تقویٰ پیدا کرنے کےلیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزوں کوفرض کیا
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ

﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ﴾تم پر روزے فرض کیے گئے ﴿کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنَ قَبْلِکُمْ﴾اسی طرح جیسے اگلی امتوں پر فرض کیے گئے۔ روزوں کی فرضیت میں انسان کے اعضاء بھی داخل ہیں ﴿أَیَّاماًمَّعْدُوْدَاتٍ﴾ چند دنوںکے روزے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےجب روزوںکی فرضیت والایہ حکم نازل فرمایا تو اس میںبھی بڑا پیارا اندازاختیارکیا،چوںکہ لوگ روزوں کےعادی نہیںتھے، اور روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہواتوآگےحکم ہوا﴿أَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ﴾چنددنوںکے روزے ہیں ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ ﴾اوروہ رمضان کے مہینہ کے ہیں۔ وہ چند دن جن میںتم پر روزے فرض کیے گئے،وہ فقط ایک ہی مہینہ ہے،اگرانتیس کوچاندہوجائےتوانتیس (۲۹)ورنہ تیس (۳۰)روزےہیں۔﴿الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن﴾پھر رمضان کایہ مہینہ ایسا بابرکت ہےجس میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف پوراقرآن پاک یک بارگی اتارا گیا، پھر آسمانِ دنیا سےنبیٔ کریمﷺپرتئیس(۲۳)سال کے عرصہ میں تدریجاً رمضان اور غیررمضان میںاترتارہا﴿ہُدًی لِّلنَّاس﴾یہ وہی قرآن ہے جولوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے ﴿وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ﴾اور اس کا ایک ایک جزو اور ایک ایک آیت ہدایت کی روشن دلیل ہےاورحق وباطل میں تمیز کرنے والی ہے﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ تم میںسےجوکوئی رمضان کامہینہ تندرستی اوراقامت کی حالت میںپالے اس کوچاہیےکہ روزےرکھے﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاًأَوْعَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾اور اگرکوئی بیمارہے،یاسفرمیںہے تو یہ گنتی دوسرے مہینہ میں پوری کرلے،یعنی ان روزوں کی بعدمیںقضا کرلے۔
اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مہینہ رکھا ہی اس لیے ہےکہ آدمی اس کے ذریعہ تقویٰ حاصل کرلے﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ صفت ِ تقویٰ پیدا کرنے کےلیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزوں کوفرض کیا۔تقویٰ کا مطلب یہ ہےکہ آدمی اپنے آپ کو گناہوں اوراللہ کی نافرمانیوں سے بچائے ۔درحقیقت روزہ کی حالت میں آدمی کواس بات کا مکمل استحضار رہتا ہے اور وہ اپنے دل و دماغ میں ہروقت یہ بات تازہ رکھتا ہےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جیسےہی ایک آدمی نے روزہ کی نیت کرلی ،توپھر چاہے وہ کیساہی گیا گزرا آدمی کیوں نہ ہو،اور کیساہی گنہگار کیوں نہ ہو، لیکن جب ایک مرتبہ وہ یہ طے کرلیتا ہے کہ میںنے روزہ رکھا ہے،تو اب گرمی کے دن ہوں،وہ اپنے کمرہ میں بیٹھا ہواہو،دروازہ اندرسےبند ہو، کُنڈی لگی ہوئی ہو،اس کو پیاس بھی شدّت کے ساتھ لگ رہی ہو،حلق میں کانٹے چُبھ رہے ہوں، زبان سوکھ رہی ہو، کمرہ میںفریج موجود ہو اوراس میںٹھنڈا پانی بھی رکھاہواہو،اس کے باوجود وہ آدمی کبھی بھی اس پانی کونہیںپیے گا ۔ حالاںکہ وہ جانتا ہے کہ میں ابھی چُپکے سے پانی پی لوں تویہاں کوئی بھی دیکھنے والا نہیں ہے،میں پانی پی کر بھی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرسکتا ہوں، اورشام کو افطار کے دسترخوان پر بڑی آزادی سے اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرتے ہوئے شریک ہوسکتا ہوں، کسی کوپتہ بھی نہیں چلے گا کہ روزہ کے معاملہ میں مَیں نےکوئی خیانت کی ہے ؛لیکن اس کے باوجود کوئی بھی ایسا نہیںکرتا۔اس وقت گویا ہر ایک یہ سمجھتا ہےکہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔اسی لیے روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے﴿اَلصَّوْمُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہِ ﴾ روزہ میرےلیے ہے، اس لیے اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا۔
حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ یہ کیفیت جودل میں پیداہوئی جس نے اس بات کوآپ کے دل ودماغ میں ہروقت تازہ رکھا ہےکہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے ، میں اگرپانی پی لوں گا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تو ہے،چاہے دنیا نے نہ دیکھا ہو، تو جیسے اُس وقت آدمی پانی نہیں پیتا اوریہ سوچتے ہوئے-کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے واسطے روزہ رکھا ہے اور جس کےلیے رکھا ہے وہ مجھےدیکھ رہا ہے-روزہ توڑنے کی کبھی جرأت نہیں کرتا ، اسی تصوراوراحساس کواور اسی استحضارکو دل ودماغ میںاورزیادہ پھیلانے اور بڑھانے کی ضرورت ہے ۔یہ خیال صرف پانی پینے یاروزہ کے خلاف کام کرنے تک باقی نہ رہے،بلکہ جب آپ دکان پر بیٹھیں اورگاہک کے ساتھ کوئی معاملہ کررہے ہوں، اُس وقت بھی آپ یہ سوچیںکہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔یا گھر والوں اورپڑوسیوں کے ساتھ کوئی معاملہ کررہے ہوں ،یا دنیا میںکہیں بھی کسی کے بھی ساتھ جب کوئی معاملہ کرنےلگیںتو یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اورمیںجوکچھ کررہاہوںوہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میںہے، تو اس صورت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ کے ڈر کایہ احساس روزہ کی حالت میں تو ہمارےدل میں ہوتاہی ہے،اگریہی احساس ایساعام ہوجائےکہ روزہ تک محدود نہ رہے،اسی کوتقویٰ کہتےہیں ،اور روزہ کے ذریعہ یہی احساس پیدا کرنامقصود ہے۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ روزہ میں تقویٰ کی ایک چھوٹی سی مشق کرائی گئی ہے،اسی کو آگے بڑھاکر پوری زندگی میںلانا ہےاور عملی جامہ پہنانا ہے ۔اگر ایساکریں گے تو ان شاء اللہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام ہوجائے گا، اور روز ہ کایہی اصل فائدہ اورخصوصیت ہے ۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here