ممبئی : 7 اگست آئیے مسلم پرسنل لا سیکھیں کے عنوان سےجاری پروگرام میں -اولاد کے حقوق اور والدین کی ذمے داریوں- پر کیڈی مسجد میں الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیریکٹر اور محقق مولانا ندیم احمد انصاری صاحب نے پُر مغز، علمی اور تفصیلی محاضرہ دیا۔انھوں نے کہا کہ رسو ل اللہﷺ نے نکا ح کے انتخا ب میں دین کو ترجیح دی ہے، اگر اس کا لحاظ رکھا جائے، تو نیک اولاد وجود میں آئے گی۔ انھوں نے بتایا کہ نکاح کے بعد اولاد کے حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میاں بیوی ہر مباشرت کے وقت اس موقع کی دعا پڑھیں تاکہ اولاد شیطان کے شر سے محفوظ رہے۔ مولانا ندیم احمد انصاری نے کہا کہ اولاد کی ولادت کے بعد والدین کی سب سے پہلی ذمّے داری یہ ہے کہ جلد سے جلد اس کے کان میں اذان دی جائے تاکہ توحید و رسالت کے کلمے اس کے کانوں کے ذریعے دل تک پہنچیں۔ مولانا موصوف نے رضاعت اور دودھ پلانے کے ضمن میں کہا کہ پوری مدتِ رضاعت دو سال ہے، جب تک کوئی خاص عذر مانع نہ ہو۔مولانا ندیم احمد انصاری نے کسی نیک شخص سے تحنیک کروانے اور اچھا نام رکھنے کی اہمیت بھی واضح کی اور کہا کہ حدیث کی رو سے والد پر اولاد کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے۔انھوں نے حدیث پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اگر والدین غیر مناسب نام رکھ دیں، تو آگے چل کر اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، حضور ﷺ نے اپنے زمانے میں متعدد صحابہ کے نام تبدیل کیے ہیں۔ مولانا انصاری نے عقیقے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچہ اپنے عقیقے کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہوتا ہے،لہٰذا اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کی جائے، اس کا سر مونڈا جائے، اور اس کا اسلامی نام رکھا جائے۔ انھوں نے اپنے محاضرے میں ان تمام باتوں کو مدلل اور مفصل انداز میں بیان کیا۔اور لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں اس کے ختنے کے مسائل بھی بیان کیے۔لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ انصاف کرنے کی تاکید کی اور اس سے متعلق قرآن و احادیث سے واضح تعلیمات بھی پیش کیں۔مولانا ندیم احمد انصاری صاحب نے کہا جس بچی کو پیدا ہونے سے قبل یا بعد کسی طرح قتل کر دیا جاتا ہے، کل قیامت میں اللہ تعالیٰ انھیں زندہ کرکے پوچھے گاکہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا ؟
انھوں نے حضانت و پرورش سے متعلق بہت اہم گفتگو کی، اس سلسلے میں شرعی ترتیب اور مسائل و حکم بھی بیان کیے اور کہا کہ طلاق وغیرہ کی صورت میں میاں بیوی میں اولاد کو لے کر معاملہ بگڑ جائے تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرنا چاہیے۔
مولانا نے بتایا کہ اولاد کا نفقہ ان کے والد پر واجب ہوتاھے، البتہ اگر اولاد مالدار ہو یا کمانے کے قابل ہو تو پھر ان کا نفقہ خود ان ہی واجب ہوتاھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اولاد کا نفقہ ادا کرنے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر دیا جاتا ہے۔ مولانا انصاری نے کہا کہ اولاد کو بر سرِ روزگار لگانافی نفسہٖ والد کی ذمے داری نہیں، لیکن بہتر ضرور ہے۔
مولانا ندیم احمد انصاری صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اولاد کے مادّی اخراجات اور جسمی تربیت ضروری ہے، اسی طرح علوم اور اصلاح کے طریقوں سے ان کی رُوحانی تربیت اس سے زیادہ ضروری ہے، لیکن اس میں کوتاہی بہت عام ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم لوگ عموماً چھوٹی عمر میں بچوں تربیت کی فکر نہیں کرتے، اس امید پر کہ بڑا ہو کر سُدھر جائے گا، یہ روِش غلط ہے۔انھوں نے کہا کہ والدین اپنی اولاد کے لیے نیک دعاؤں کا بھی اہتمام کریں اور انھیں بد دعا دینے سے بچیں۔اس لیے کہ اولاد کے حق میں والدین کی دعا مقبول ہوتی ہے۔مولانا موصوف نے احادیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب بچے سات برس کے ہوجائیں تو انھیں نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہیے اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان کی تادیب کرنی چاہیے اور ان کے بستر بھی الگ کردینے چاہئیں۔نیز بلوغت سے پہلے ہی جب بچے میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو جائے تو اسے روزہ رکھوانا چاہیے، تاکہ اسے عادت پڑ جائے۔
اور اسے ہر قسم کے گناہ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے،لیکن یہ تربیت اور روک ٹوک صحیح نہج پر ہونی چاہیے۔ہر وقت اور ہر کام میں روکنا ٹوکنا خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔ نیز غصے میں بچوں کو ہرگز نہ مارا جائے چاہے۔غصہ فرو ہونے کے بعد سوچ سمجھ کر سزا دی جائے اور بہتر سزا یہ ہے کہ بچوں کی چھٹی (یا کوئی رعایت وغیرہ) بند کر دی جائے، اس سے ان پر کافی اثر ہوتا ہے۔مولانا نے احادیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ اولاد میں عدل و انصاف کرنابھی والدین کی ذمے داری ہے، اس میں کوتاہی کے بڑے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔البتہ کسی خاص سبب سے کمی زیادتی گنجائش نکل سکتی ہے۔
مولانا ندیم احمد انصاری خود بھی دینی و عصری تعلیم کے جامع ہیں۔ انھوں نے عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا دنیوی یا عصری علوم کا حصول فی نفسہٖ جائز و مباح ہے ۔ لیکن فی زمانہ چوں کہ عصری علوم کا رشتہ معاشیات، سیاسیات اور سماجیات سے جوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اس کا حصول بھی لازم و ضروری ہو گیا ہے۔اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔مولانا نے بتایا کہ اولاد کے بالغ ہونے کے بعد جتنی جلدی ہوسکے اس کے نکاح کی فکر کرنی چاہیے، اگر ایسا نہ کیا جائے اور اولاد کسی غلط کام میں مبتلا ہوجائے تو کوتاہی کی وجہ سے باپ بھی گنہ گار ہوگا۔ انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے محاضرے کو ختم کیا کہ شریعت میں ایک ہدایت تو اولاد کے لیے ہے، وہ یہ کہ والدین کی اطاعت کریں،ایک ہدایت والدین کے لیے ہے کہ جب اولاد بڑی ہو جائے تو اس کی طبیعت کے خلاف اس پر جبر نہ کیا جائے، دونوں اپنی ذمّے داریوں کو ادا کریں تو بہت سی مشکلات حل ہو جائیں۔