زیارتِ روضۂ رسول اللہ ﷺ کے فضائل و مسائل

زیارت روضۂ رسول ﷺ کے فضائل و مسائل

مولانا ندیم احمد انصاری حفظہ اللہ

سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، تاجدار مدینہ، سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت بالا جماع اعظم قربات اور افضل طاعات میں سے ہے اور درجات کے لئے سب وسائل سے بڑا وسیلہ ہے۔ بعض علماء نے اہل وسعت کے لئے قریب واجب کے لکھا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ عورتوں کے لئے بھی روضۂ اطہر کی زیارت بلاکر اہت مستحب ہے، جبکہ اس کے شرائط کے ساتھ ہو۔ (اللباب المناسک، عمدۃ الفقہ، المھند علی المفند)

زیارت کے فضائل

جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارتِ کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ (الترغیب) ایک روایت میں ہے: جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، جو مکّہ یا مدینہ میں وفات پاگیا تو وہ قیامت میں عذاب سے بے خوف ہوکر اٹھے گا۔ (الترغیب)

مدینہ منوّ رہ کی فضیلت و اہمیت

پوری روئے زمین میں سب سے افضل ترین زمین کا وہ حصہ ہے، جو رسول اللہ ا کے جسد اطہر سے ملاِ ہوا ہے، اور یہ اعزاز مدینہ طیّبہ کو حاصل ہے۔ اس کے بعد کعبۃ اللہ اور حرم مکّی ہے، اس کے بعد حدودِ مدینہ منوّ رہ ہیں۔ (شامی بحوالہ انوارِ مناسک)
رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تھی: اے اللہ! حضرت ابراہیم ؑ آپ کے بندے اور آپ کے خلیل تھے۔ انہوں نے آپ سے اہل مکہ کے لئے برکت کی دعا فرمائی تھی، اور میں آپ کا بندہ اور آپ کا رسول ہوں، میں اہل مدینہ کے لئے برکت کی دعا کرتا ہوں،آپ اہل مدینہ کو اہل مکہ سے دوگنی برکت عطا فرمائیے۔ (ترمذی)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے حدودِ مکہ مکرمہ کو محترم قرار دیا، اسی طرح میں حدودِ مدینہ منوّ رہ کو محترم قرار دیتا ہوں۔(ترمذی، بخاری،مسلم)
آپ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی مدینہ میں مرسکتا ہو، تو اسے چاہئے کہ مدینہ میں مرے، کیونکہ قیامت کے دن میں مدینہ میں مرنے والوں کی شفاعت کرونگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) مدینہ اسلام کا قبہ ہے، ایمان کا گھر ہے، ہجرت کی زمین ہے اور حلال و حرام کی زمین ہے۔(الترغیب) نیز آپﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، مدینے کی خاک شفا ہے، ہر بیماری سے۔ (الترغیب)

مدینہ منوّ رہ کا سفر

جب مدینہ منوّ رہ کی طرف روانہ ہوتو تمام راستہ میں کثر ت سے درود شریف پڑھتا رہے اور خوب ذوق و شوق پیدا کرلے اوراظہارِ محبت میں کوئی کمی نہ کرے، حتیٰ کہ اگر خود یہ کیفیت پیدا نہ ہو توبہ تکلف پیدا کرے۔ راستہ میں آنے والے متبرک مقامات و مقابر وغیرہ کی بھی زیارت حتی المقدور کرتا چلے۔ خصوصاً مسجد حرام سے ۶۱؍ کلو میٹر کے فاصلہ پر مقام سرف میں واقع اُمّ المؤمنین حضرت میمونہؓ کی قبر پر ایصالِ ثواب کرتا ہوا گزرے۔ (عمدۃ الفقہ، اللباب المناسک وارشاد الساری)
جب مدینہ منوّ رہ کے قریب پہنچے تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھَمَّ ھٰذَا حَرَمُ رَسُوْلِکَ، فَاجْعَلْ دُخَوْلِیْ وِقَایَۃً مِنَ النَّارِ، وَاَمَانًا مِّنَ الْعَذَابِ وَسُوْءِ اْلحِسَاب (قاضی خان)
مدینہ منوّ رہ میں داخل ہونے سے قبل اگر ممکن ہو تو غسل کرلے، ورنہ وضو کرلے اور نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہن لے اور جب داخل ہونے لگے تو یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ مَا شَآءَ اللّٰہُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ، رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا ، اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ، وَارْ زُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، مَارَزَقْتَ اَوْلِیَآءِ کَ وَاَھْلِ طَاعَتِکَ، وَانْقِذِیْ مِنَ النَّارِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا خَیْرَ مَسْءُوْلٍ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لَنَا فِیْھَا قَرَاْرًا وَّرِزْقاً حَسَناً۔ (اللباب المناسک مع شرحہ:، معلم الحجاج)

مسجدِ نبوی ﷺمیں حاضری

جب مدینہ منورہ میں جانا ہو تو بہتر یہ ہے کہ نیت زیارتِ قبر مطہرہ کی کرے، تاکہ مصداق اس حدیث کا ہوجائے کہ ’’ جو شخص میری زیارت کو آئے، مجھ پر اس کی شفاعت واجب ہے‘‘۔ (زبدۃ المناسک)
جب مدینہ منورہ میں داخل ہوجائے تو حتی المقدور، سب سے پہلے مسجدِ نبوی میں حاضر ہو، البتہ عورتوں کے حق میں،مردوں کی کثرت سے بچنے کی غرض سے، رات میں جانا بہتر ہے۔
داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ صَحْبِہٖ وَسَلِّمْ، الَلَّھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ، وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
اس دعا کو نہایت خشوع وخضوع، عاجزی وانکساری کے ساتھ پڑھتے ہوئے، داہنے پاؤں سے مسجد میں داخل ہو، اگر ممکن ہو تو بابِ جبریل سے اندر داخل ہو، یہ زیادہ بہتر ہے۔ داخل ہونے کے بعد اِدھر اُدھر دیواروں وغیرہ کو نہ دیکھتا رہے، بلکہ خوب ادب کا لحاظ رکھے اور فرض نماز کی جماعت کا وقت ہو تو اس میں شریک ہو جائے، ورنہ، ریاض الجنہ میں ۲؍ رکعت تحیہ المسجد پڑھ کر دعا کرے۔ (اللباب مع ارشاد الساری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، نبی ا نے ارشاد فرمایا: میرے گھر (یعنی موجودہ قبرِ اطہر کا مقام) اور میرے مبنر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ (بخاری، مسلم)
اگر ریاض الجنۃ میں نماز کا موقع نہ ہو تو پھر روضہ میں جہاں جگہ ملے نفل پڑھ لے، اور سلام پھیر کر خدا کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرے اور زیارت کے قبول ہونے کی دعا کرے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ سجدہ شکر بھی کرلے کہ حق تعالیٰ نے اس نعمت عظمیٰ سے نوازا۔ مگر بہتر یہ ہے کہ دو رکعت شکرانہ کی نیت سے پڑھ لے، صرف سجدہ نہ کرے، گوجائز ہے۔ (اللباب مع ارشاد الساری، معلم الحجاج)

روضۂ اطہرﷺ پر حاضری

ریاض الجنۃ میں نماز و دعا سے فراغت پر نہایت ادب کے ساتھ مرقدِ اطہر ا پر آئے اور دل کو تمام دنیوی خیالات سے فارغ کرکے، قبلہ کی طرف سے پشت کرے اور ذرا بائیں جانب مائل ہو، تاکہ روئے انور ا کے سامنے ہوجائے۔ پھر یہ تصوّ ر کرے کہ حضرت محمد ا قبر مبارک میں قبلہ کی طرف چہرۂ مبارک کیے ہو ئے لیٹے ہیں اور جان رہے ہیں کہ فلاں شخص حاضر ہوا ہے۔ پھر درمیانی آواز سے درود وسلام کا نذرانہ پیش کرے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَۃَ اللّٰہِ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ وُلِدَ آدَمَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرْکَاتُہٗ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْھَدُ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلَہٗ، اَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ، وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ، وَ نَصَحْتَ الْاُمَّۃَ، وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ، فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً، جَزَاکَ اللّٰہُ عَنَّا اَفْضَلَ مَاجَزیٰ نَبِیًّا عَنْ اُمَّتِہٖ، اَللّٰھُمَّ اَعْطِ لِسَیِّدِنَا عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ مُحَمَّدَنِالْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرْجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَاماً مَحْمَودَنِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ، اِنَّکَ لاَتُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، وَاَنْزِلْہُ الْمَنْزِلَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ، اِنَّکَ سُبْحَانَکَ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ہ
اس کے بعد آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور خوب دعائیں کرے اور آپ سے شفاعت کی درخواست ان الفاظ میں کرے:
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَسْءَلُکَ الشَّفَاعَۃَ وَاَتَوَسَّلُ بِکَ اِلَی اللّٰہِ فِیْ اَنْ اَمُوْتَ مُسْلِماً عَلٰی مِلَّتِکَ وَسُنَّتِکَ
سلام کے الفاظ میں جس قدر چاہے زیادتی کر سکتا ہے، مگر سلف کا معمول اختصار تھا اور اختصار ہی کو مستحسن سمجھتے تھے، اگر کسی کو یہ پورے الفاظ یاد نہ ہوں تو کم از کم اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کہے۔

اس کے بعد جس عزیز کا سلام کہنا ہو، یوں عرض کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْ فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ یَسْتَشْفِعُ بِکَ اِلٰی رَبِّکَ
اور اگر بہت سے لوگوں نے سلام عرض کرنے کو کہا ہے، اور نام یاد نہ رہیں، تو سب کی طرف سے اس طرح سلام عرض کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ مَنْ اَوْصَانِیْ بِالسَّلَامِ عَلَیْکَ۔

حضرت ابو بکرؓ پر سلام

سرکارِ دو عالم ا کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے بعد ایک ہاتھ کے بقدر، داہنی طرف کو ہٹ کر سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ پر سلام پیش کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، وَثَانِیَہٗ فِی الْغَارِ، وَرَفِیْقَہٗ فِی الْاَسْفَارِ، وَاَمِیْنَہٗ عَلَی الْاَسْرَارِ، اَبَا بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ جَزَاکَ اللّٰہُ، عَنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْراً۔
یہاں بھی الفاظ میں کمی زیادتی کا اختیار ہے۔

حضرت عمرؓ پر سلام

حضرت صدیق اکبرؓ پر سلام پیش کرکے ایک ہاتھ مزید داہنی طرف کو ہٹ کر سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ پر سلام پیش کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ الْمَؤْمِنِیْنَ عُمَرَ الْفَاَرُوْقَ الَّذِیْ اَعَزَّاللّٰہُ بِہِ الْاِسْلَامَ، اِمَامَ الْمُسْلِمِیْنَ، مَرْضِیّاً حَیّاً وَمَیِّتاً، جَزَاکَ اللّٰہُ عَنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْراً۔
اگر روضۂ اطہر تک بھیڑ کی وجہ سے پہنچ سکناممکن نہ ہو تو مسجد نبوی ؐ کے کسی بھی حصہ میں کھڑا ہو کر سلام پیش کرسکتا ہے۔ (زبدۃ المناسک ، معلم الحجاج)

دربارِ رسالت میں مکرّر حاضری

درود و سلام سے فراغت پر دوبارہ بارگاہ سرورِ کائنات ا کے سامنے ہوکر اللہ تعالیٰ کی خوب حمد و ثناء کرے اور آپ ا پر درود شریف پڑھے اور آپ کے توسل سے دعا کرے اور شفاعت کی درخواست کرے اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے، اپنے والدین، اساتذہ، مشائخ، احباب، اقارب اور سب مسلمانوں کے لئے خوب خوب دعائیں کرے (معلم الحجاج)

یاد آجائے تو گنہگار راقم الحروف کی جانب سے بھی سلام پیش کرکے دعا فرمائیں، اس سیاہ کار پر بڑا احسان ہوگا، اللہ پاک اس کا بہترین بدلہ آپ کو دونوں جہاں میں نصیب فرمائیں۔ھل جزاء الاحسان الا الاحسان!سائل ہوں اور سائل کا حق ہوتا ہے۔

درود و سلام کے بعد دو رکعت

درودو سلام اور دعا کے بعد اُستوانہ ابولُبابہؓ کے پاس آکر دو رکعت نفل پڑھ کر دعائیں مانگے، اس جگہ پر توبہ کی قبولیت قرآن سے ثابت ہے۔ پھر روضہ میں آکر نفل پڑھے اور نماز و دعا جس قدر ہوسکے کرے۔ پھر منبر کے پاس آکر اور اس کے بعد حنانہ اور باقی ستونوں کے پاس دعا و استغفار کرے۔ (انظر: اللباب ، زبدۃ المناسک ، معلم الحجاج)

مسجد نبوی امیں نمازوں کی فضیلت

مدینہ میں قیام کو غنیمت جانے اور جب تک وہاں کی حاضری مقدر ہواس کا اکثر وقت مسجد نبوی ا میں بہ نیت اعتکاف گزارے اور پنجگانہ نمازیں جماعت کے ساتھ بلکہ تکبیر اولیٰ اور اوّل صف کے اہتمام کے ساتھ ادا کرے۔ مسجد نبوی ؐ میں نماز ادا کرنے پر بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ا فرماتے ہیں: میری مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ۵۰۰۰۰؍ نمازوں کے برابر ہے۔(مسند احمد)جو شخص مسجد نبوی میں مسلسل ۴۰؍ فرض نمازیں پڑھے اس کے لئے جہنم سے چھٹکارا اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بری ہوجاتا ہے۔ (مسند احمد)

مدینہ کے قابلِ زیارت مقامات

جنت ا لبقیع اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت بھی مستحب ہے۔(معلم الحجاج) حسبِ موقعہ ان کی زیارت سے بھی ضرور استفادہ کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here