حج سیکھیں 7

مولانا ندیم احمد انصاری

جنایات کا جانور اور ہدی

جنایات کے جانوروں کا گوشت کھانا بھی جائز نہیں، نہ جانور کے مالک کے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے مالدار کے لیے۔ جنایات کے جانور وہ ہیں جس کا کہ حج میں واقع ہونے والی کمی کو پورا کرنے کی وجہ سے (ذبح کرنا) واجب ہوا ہو۔اور قربانی کا وہ جانور جو حرمِ پاک میں بھیجا جائے، اسے ’ہد ی‘ کہتے ہیں۔ ہدی کا جانور بکریاں، گائے، اونٹ وغیرہ ہیں اور ایک بکری ایک آدمی کی طرف سے درست ہے اور ایک اونٹنی اور ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔ ہدی کے جانور کے لیے وہی شرائط ہیں جو کہ قربانی کے جانوروں کے لیے ہیں یعنی عیوب سے صحیح و سالم ہونا۔ اسی طرح مکمل ایک سال کی بکری کی قربانی جائز ہے اور اس سے وہ بھیڑ یا دُنبہ مستثنیٰ ہے جو آدھے سال سے زیادہ کا ہو لیکن اتنا فربہ ہو کہ اس کے اور ایک سال والے جانوروں کے درمیان اس کے موٹاپا کی وجہ سے کوئی فرق نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ مکمل دو سال کی گائے کی قربانی جائز ہے اور مکمل پانچ سال کے اونٹ کی قربانی جائز ہے۔

تطوّ ع، قران اور تمتع کے ہدی کا جانور رمیِ جمرۂ عقبہ کے بعد قربانی کے دنوں میں ذبح کیا جائے گا اور بقیہ ہدی کے جانوروں کے ذبح کرنے کی کسی زمانے کے ساتھ کوئی قید نہیں ہے ۔ہدی کا ہر ایک جانور حرمِ پاک ہی میں ذبح کیا جائے گا اور قربانی کے دنوں میں ہدی کے جانوروں کا منیٰ میں ذبح کرنا مسنون ہے۔ قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کا گوشت کھائے جب کہ وہ تطوّ ع، نفل، قران یا تمتع کے لیے ہواور اسی طرح مال دار وں کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ تطوّ ع، نفلی قربانی، قران اور تمتع کے جانوروں کا گوشت کھائیں۔ اگر تطوّ ع کا جانور راستے میں ہلاک ہوجائے (یعنی کسی وجہ سے اسے راستے میں ذبح کرنا پڑے) تو جانور کا مالک اس کا گوشت نہیں کھائے گااور نہ کوئی دوسرا مال دار، بلکہ اسے ذبح کرکے اس کے پٹے کو اس کے خون میں لت پت کر کے چھوڑ دینا واجب ہے۔ نذر کے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے، نہ جانور کے مالک کے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے مال دار کے لیے، اس لیے کہ وہ صدقہ ہے جو فقرا و محتاجوں کا حق ہے۔

عمرہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ

عمرہ کے معنی لغت میں مطلق زیارت کے ہیں اور اصطلاح میں میقات یا حِلّ سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفاو مروہ کی سعی کرنے کو ’عمرہ‘ کہتے ہیں، عمرہ کو حجِ اصغر بھی کہتے ہیں۔

عمرہ اور حج میں فرق

عمرہ کے شرائط مثل شرائطِ حج کے ہیں اور اس کے احرام کے احکام بھی مثل حج کے احرام کے ہیں۔ جو چیزیں حج میں حرام و مکروہ اور مسنون و مباح ہیں وہ یہاں بھی ہیں، البتہ چند امور مختلف ہیں، جیسے: (۱) حج کے لیے ایک خاص وقت متعین ہے، جب کہ عمرہ تمام سال میں ہوسکتا ہے، صرف پانچ روز یعنی نویں ذی الحجہ سے تیرھویں ذی الحجہ تک ، عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے (۲) حج فرض ہے، عمرہ فرض نہیں (۳) حج فوت ہو جاتا ہے، عمرہ فوت نہیں ہوتا(۴) حج میں وقوفِ عرفہ اور وقوفِ مزدلفہ اور نمازوں کو اکٹھا پڑھنا اور خطبہ ہے، عمرہ میں یہ چیزیں نہیں ہیں (۵) حج میں طوافِ قدوم اور طوافِ وداع ہوتا ہے، عمرہ میں یہ دونوں نہیں ہیں(۶) عمرہ فاسد کرنے سے یا جنابت کی حالت میں طواف کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنا کافی ہے اور حج میں کافی نہیں (۷) عمرہ کی میقات تمام لوگوں کے لیے حِلّ ہے، بخلاف حج کے کہ حج میں اہلِ مکہ کی میقات حرم ہے، اور آفاقی جب باہر سے آئے تو وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر آئے گا اور (۸) عمرہ میں طواف کے وقت تلبیہ موقوف کیا جاتا ہے اور حج میں جمرۂ اخریٰ کی رمی شروع کرنے کے وقت تلبیہ موقوف کیا جاتا ہے۔

عمرہ کے افعال میں ترتیب

عمرہ کے افعال میں ترتیب لازم ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ طوافِ عمرہ کو عمرہ کی سعی پر مقدم کرنا صحتِ سعی کے لیے شرط ہے، لہٰذا اگر پہلے سعی کرلی جائے، اس کے بعد طواف کیا جائے تو سعی صحیح ہی نہ ہوگی اور نہ ہی دَم دینا کافی ہوگا بلکہ طواف کے بعد دوبارہ سعی کرنا لازم ہوگا اور سعی اور حلق کے درمیان ترتیب قائم رکھنا واجب ہے، شرط نہیں یعنی پہلے سعی کی جائے اس کے بعد حلق یا قصر کرنا واجب ہے۔ اس کے بر عکس اگر طوافِ عمرہ کے بعد پہلے حلق یا قصر کرے گا اور اس کے بعد سعی کرے گا تو دَم دینا لازم ہو جائے گا اور ترتیب کے ساتھ دو بارہ دونوں کا اعادہ لازم نہ ہوگا۔

عمرہ کا مکمل طریقہ

عمرہ کے لیے میقات سے مثلِ احرامِ حج کے عمرہ کا احرام باندھے اور احرام کے محرمات و مکروہات سے بچے اور مکہ مکرمہ میں باب السّلام سے داخل ہو اور بعض نے کہا کہ باب العمرہ سے داخل ہو اور پھر رمل و اضطباع کے ساتھ طواف کرے اور جب حجرِاسود کا اوّل استلام کرے تو تلبیہ موقوف کردے اور طواف کے بعد دوگانہ طواف پڑھ کر حجراسود کا استلام کرکے باب الصفا سے نکل کر مثل حج کے سعی کرے اور سعی ختم کرکے مروہ پر حجامت بنواکر حلال ہوجائے اور سعی کے بعد دو رکعت مطاف کے کنارے پر پڑھے، بس عمرہ مکمل ہوگیا۔

تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب – تعلیمِ اسلام

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here