مفتی ندیم احمد انصاری
جمعے کے دن نفلی روزہ رکھنے سے متعلق روایات مختلف ہیں، اسی بنا پر بعض علما نے اس دن روزہ رکھنے کو مستحب بتایا اور بعض نے مکروہ۔ بعض روایات میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے اور بعض روایات میں اس دن کو روزے کے لیے خاص کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر جمعے کے ساتھ جمعرات یا سنیچر کا دن ملا لیا جائے تو جمعے کی تخصیص ختم ہو جاتی اور اس طرح روزہ رکھنا بلا اختلاف درست ہو جاتا ہے۔ اگر بدھ، جمعرات اور جمعے کا روزہ رکھ لیا جائے، تو یہ افضل صورت ہے،اس کے باوجود احناف کے یہاں تنہا جمعے کا روزہ بھی مکروہ نہیں۔دلائل حسبِ ذیل ہیں:
جمعے کے روزے کی فضیلت
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے جمعے کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس دن لکھ دیتے ہیں؛ جو آخرت کے دنوں کے برابر ہوں گے، اور دنیا کے دنوں کے مشابہ نہیں ہوں گے۔[الترغیب والترہیب] ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس نے دن میں پانچ کام کرلیے اللہ تعالیٰ اسے جنتی لکھے گا:(۱) جمعے کا روزہ(۲) جمعے کے لیے جانا(۳)مریض کی عیادت (۴) جنازے میں شرکت (۵)(کسی کی) گردن آزاد کرانا۔ [کنزالعمال]
تنہا جمعے کے روزے کا جواز
حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ جمعے کا روزہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔[مصنف ابن ابی شیبہ]
جمعے کے روزے کی ممانعت
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راتوں میں سے جمعے کی رات کو قیام کے ساتھ اور دنوں میں سے جمعے کے دن کو روزے کے ساتھ مخصوص نہ کرو، مگر یہ کہ تم میں سے کوئی (مسلسل) روزے رکھ رہا ہو۔[مسلم]حضرت جنادہ ازدیؓسےروایت ہےکہ آٹھ آدمیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، ان آٹھ میں سے آٹھویں وہ خود تھے۔ رسول اللہ ﷺنے کھانا منگوایا اور ایک آدمی سے کہا : کھاؤ! وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : میں روزے سے ہوں۔ آپ ﷺ نے دوسرے کو کہا : کھانا کھاؤ! اس نے بھی کہا : میں روزے سے ہوں۔ آپ ﷺ نے سب سے پوچھا، اور سب نے روزےکا عذر کیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : گذشتہ کل تم نے روزہ رکھا تھا ؟ وہ بولے : نہیں۔آپ نے فرمایا: کیاآیندہ کل روزہ رکھو گے ؟ سب نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دیا اور فرمایا : تنہا جمعے کے دن روزہ مت رکھو ۔[کنزالعمال]ایک حدیث میں ہے:حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جمعے کے دن روزہ نہ رکھو، بلکہ اسے عید کا دن بناؤ۔ [کنزالعمال]
جمعے کے ساتھ پہلے یا بعد کا روزہ
حضرت جویریہ بنت حارثؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ ان کے پاس جمعے کے دن تشریف لائے اور وہ روزے سے تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا گذشتہ کل تم نے روزہ رکھا تھا؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:کیا آیندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر افطار کرلو![بخاری]حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ہر ماہ کے شروع کے تین دن روزے رکھتےتھے اور ایسا کم ہوتا تھا کہ جمعے کے دن آپ روزے سے نہ ہوں۔[ترمذی] حضرت ابوہریرہؓکہتے ہیں، میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی شخص جمعے کے دن روزہ نہ رکھے، مگر یہ کہ اس کے ایک دن پہلے یا اس کے بعد ایک دن ملا کر روزہ رکھے۔[بخاری]
اگر جمعہ معمول کے دنوں میں آجائے
حضرت بشیرؓکی اہلیہ لیلیٰ کہتی ہیں کہ حضرت بشیرؓ نے ایک مرتبہ حضرت نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میں جمعےکا روزہ رکھ سکتا ہوں؟ اور یہ کہ اس دن کسی سے بات نہ کروں ؟ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: جمعےکے دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ نہ رکھا کرو، الاّ یہ کہ وہ ان دنوں یا مہینوں میں آرہا ہو جن میں تم روزہ رکھ رہے ہو۔ باقی رہی یہ بات کہ کسی سے بات نہ کرو تو میری زندگی کی قسم ! تمھارا کسی اچھی بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، تمھارے خاموش رہنے سے بہتر ہے۔ [مسند احمد]
بدھ، جمعرات اور جمعے کا روزہ
قریش کے ایک سردار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کے روشن دہنِ مبارک سے سنا کہ جو شخص ماہِ رمضان، شوال، بدھ جمعرات اور جمعے کے دن روزہ رکھا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔[مسند احمد]
’نہی‘ منسوخ ہو گئی
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں کہ ’حنفیہ اور مالکیہ کا کہنا یہ ہے کہ ابتدا میں نہی تھی، بعد میں منسوخ ہو گئی اور ابتدا میں اس لیے تھی کہ کہیں لوگ جمعے کی اس طرح تعظیم شروع نہ کر دیں جیسے یہودیوں نے یوم السبت کی شروع کر دی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جمعے کے دن بہت کم روزہ افطار فرماتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ ممانعت اسی مذکورہ وجہ سے تھی‘۔حضرت جویریہؓوالی حدیث میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے، وہ اسی زمانے کی بات ہے، جب علیحدہ (جمعے کا) روزہ رکھنے کی ممانعت تھی۔ [دیکھیے انعام الباری]
راجح قول
’فتاویٰ مظاہر علوم‘ میں ہے کہ ’بے شک بعض احادیث میں تخصیصِ صومِ جمعہ کی نہی آئی ہے، سو محدثین نے اس کی چار وجہیں بیان فرمائی ہیں؛
(۱)اول اس وجہ سے نہی کہ دوسرے وظائفِ یومِ جمعہ کے قائم کرنے میں ضعف واقع ہوگا۔
(۲)دوسرے؛ خوف ہے کہ تعظیمِ جمعہ میں مبالغہ نہ کرنے لگیں اور یہود ونصاریٰ کی طرح تعظیم میں مبتلاہوجائیںکہ یہود سنیچر کی اور نصاریٰ اتوار کی نہایت تعظیم کرنے لگے ہیں،ایسے ہی مسلمان جمعے کی تعظیم کرنے لگیں گے۔
(۳)تیسری وجہ نہیِ صومِ جمعہ کی یہ (بیان) فرمائی ہے کہ کثرت سے روزہ رکھنے میںخوف ہے اعتقادِ وجوبِ صومِ جمعہ کا۔
(۴)چوتھے یومِ جمعہ یومِ عیدِ مؤمنان ہے، پس یومِ عید کو روزہ نہ رکھنا چاہیے، جیسا کہ عیدالفطر وعید الاضحی کے روز روزہ رکھنا نہ چاہیے، ایسے ہی جمعے کابھی نہ رکھنا چاہیے۔چناں چہ بعض احادیث میںیومِ جمعہ یوم عیدکم فلا تجعلوا یوم عیدکم یوم صیامکم آیا ہے اور یہ وجہ احسن ہے، کیوں کہ حدیث شریف کے مطابق ہے۔ [کذافی اللمعات شرح مشکوۃ]
مگر متفق علیہ مسئلہ یہ ہے کہ تنہا جمعے کا روزہ رکھنا فی نفسہٖ جائز ہے، ممنوع نہیں، البتہ بعض وجوہات سے جیسا کہ مذکور ہوا کراہت عارض ہوجائے گی‘۔
اس پر استدراک کرتے ہوئے خاتم المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ رقم طراز ہیں:قال فی الدر المختار والمندوب کایام البیض من کل شھر ویوم الجمعۃ منفرداً۔ پس یوم جمعے کا روزہ اکثر علما کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے علی قول الطرفین، اور بعض نے علی قول الثانی مکروہ فرمایا ہے، فکان الاحتیاط ان یضم الیہ یوما اٰخر۔[فتاویٰ مظاہر علوم المعروف بہ فتاویٰ خلیلیہ]
[کالم نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]