سفر نامہ: دیوبند، نانوتہ، جلال آباد، تھانہ بھون، گنگوہ اور رائے پور
مولانا ندیم احمد انصاری
ڈیریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
دیوبند یوں تو بھارت کے اتر پردیش کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، لیکن اس میں واقع دارالعلوم مسلمانوں کا عظیم دینی مرکز ہے۔عرصے سے اس کی زیارت کا ارادہ تھا۔ گذشتہ دنوں دارالعلوم وقف دیوبند کی مجلسِ مشاورت کے رکن حافظ اقبال صاحب کے سامنے اس تمنا کا اظہار کیا تو انھوں نے اپنی معیت میں سفر کی دعوت پیش کی۔ مجھے اپنی دیرینہ تمنا کی تکمیل ہوتی نظر آئی، اس لیے میں راضی ہو گیا۔روانگی سے قبل سیدی و سندی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم سے فون پر سفر کا تذکرہ کیا تو انھوں نے مخلصانہ دعاؤں سے نوازا۔ 16 ستمبر 2019ء کو دارالعلوم وقف دیوبند کی مشاورت کی میٹنگ تھی، جس میں حافظ صاحب کو شریک ہونا تھا۔ ہم لوگ ایک دن قبل یعنی پندرہ کی صبح فلائٹ سے دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔وہاں ائیر پورٹ پر محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کا بھیجا ہوا ڈرائیور اور گاڑی منتظر تھی۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر ’انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر‘آئے، وہاں ظہر کی نماز ادا کی اور یہیں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ کے فرزند عدنان قاسمی اور داماد سلمان غازی صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ عدنان صاحب نے کلچرل سینٹر سے ملحق ’دلی دسترخوان‘ میں ضیافت فرمائی۔ باہر نکلتے ہوئے کلچرل سینٹر کے سربراہ سراج صاحب ملے۔اس کے بعد عدنان قاسمی صاحب نے وداع لی اور حافظ اقبال صاحب، سلمان غازی صاحب اور میں ڈرائیور کے ساتھ دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔ سلمان غازی صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، لیکن دورانِ سفر ان سے اچھی گفتگو رہی۔
مراد نگر کی طرف سے گزرتے ہوئے ’جھل مل ہوٹل‘ میں چائے کا وقفہ رہا۔کچھ آگے پہنچ کر ایک مسجد میں عصر کی نماز ادا کی۔پھر مظفر نگر، باغوں والی میں ’مدرسہ عربیہ اسلامیہ خادم العلوم‘ کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ حافظ اقبال صاحب کے پاس دیوبند سے فون آرہے تھے کہ ’کہاں تک پہنچ گئے؟‘ ہم باغوں والی سے دیوبند کے لیے روانہ ہوئےاور تھوڑی ہی دیر میں ’مسجد کمال شاہ‘ پہنچ گئے۔ وہاں حضرت خطیب الاسلامؒکے خادمِ خاص مولانا شاہد قاسمی ہماری آمد کے منتظر تھے۔گاڑی سے اُتر کر ہم ’آستانۂ قاسمی‘ پہنچے۔ دیوبند میں یہ بانی دارالعلوم حضرت امام محمد قاسم نانوتویؒ کا قدیم مکان ہے۔ حضرت مولانا سفیان قاسمی صاحب اور ان کے فرزندِ ارجمند محبی مولانا ڈاکٹر شکیب قاسمی نے قافلے کا پر تباک استقبال کیا۔محبی ڈاکٹر شکیب صاحب سے کئی سالوں سے فون پر رابطہ رہا، لیکن بالمشافہ ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا، لیکن خانوادۂ قاسمی کے اس چشم و چراغ اور نیک سیرت اور نیک صورت نوجوان نے اس طرح مسکراکر مجھ طفیلی کا استقبال کیاکہ سفر کی تکان جاتی رہی اور ان کی محبت دل میں گھر کر گئی۔عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔ ہم لوگوں نے نماز ادا کی۔اس کے بعد عشائیہ پیش کیا گیا۔محبی ڈاکٹر شکیب صاحب ایک ساتھ مختلف و متعدد امور کی انجام دہی میں لگے رہتے ہیں۔ دل میں شدید تقاضا تھا کہ ان کے ساتھ فرصت کے لمحات میسّر آئیں۔ لیکن اگلے روز ہونے والی مشاورت کی میٹنگ کے سبب وہ کافی مشغول تھے۔جب رات بڑھنے لگی تو قیام کے لیے ہمیں دار العلوم وقف دیوبند کے مہمان خانے میں پہنچایا گیا۔ وہاں بھی یہ نیک بندہ از خود انتظامات دیکھنے کے لیے آپہنچا۔ میری مراد بَر آئی اور ان سے مختصر گفتگو کا موقع مل گیا۔لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ رخصت لے کر اور آیندہ کل ملاقات کا وعدہ کرکے تشریف لے گئے۔
صبح اٹھ کر معمولات پورے کیےاور نمازِ فجر کی ادایگی کے لیے ’اطیب المساجد‘ میں پہنچے۔نماز کے بعد ’مزارِ قاسمی‘ حاضری ہوئی۔
بزرگوں کی قبروں کی زیارت اور ان کی روحوں کو ایصالِ ثواب کیا۔یہ دیوبند کا تاریخی قبرستان ہے اور دارالعلوم کے اکثر اکابر علما کی آرام گاہ۔اس قبرستان میں اکثر اوقات میں کوئی نہ کوئی ایصالِ ثواب کے لیے آتا ہی رہتا ہے۔وہاں سے واپس ہوتے ہوئے ’مزارِ انوری‘ پر علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ کی قبروں کی زیارت کی اور ایصالِ ثواب کیا۔کچھ دیر آرام کے بعد ناشتے کی جگہ پہنچے۔وہاں مولانا اظہار الحق قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بتانے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے ’نداے دارالعلوم وقف دیوبند‘ میں میری کتاب ’رسائلِ ابنِ یامین‘ پر تبصرہ کیا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اس بات کی زیادہ خوشی ہےکہ آپ نے صاحبِ کتاب کو دیکھ کر نہیں بلکہ کتاب پڑھ کر تبصرہ کیا‘۔اسی دوران محبی ڈاکٹر محمد شکیب صاحب وارد ہوئے۔ حسبِ عادت ان کے ذہن و دماغ میں کئی کام چل رہے تھے۔انھوں نے آتے ہی وہاں موجود اپنے رفقا کو مختلف کاموں پر لگادیا۔ حافظ اقبال صاحب میٹنگ میں جانے کے لیے تیار ہونے چلے گئے۔میں تیار ہو کر نیچے آیا تو معلوم ہوا دارالعلوم وقف دیوبند کے محدث و شیخ الادب استاذی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب دارالافتا میں مفتی احسان صاحب و دیگر مفتیان کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔میں حاضر ہوا تو وہ انتہائی محبت اور شفقت سے ملے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے خیریت معلوم کی اور حاضرین سے میرا تعارف کرواتے ہوئے گویا ہوئے: ’یہ ممبئی سے مولانا ندیم احمد انصاری صاحب ہیں۔پہلی دفع دیوبند آئے ہیں۔ یہیں (دارالعلوم وقف دیوبند) کے فیض یافتہ سمجھیے کہ میں نے ہی ممبئی میں ایک مجمعِ عام میں سندِ حدیث دی تھی‘۔ان سے اجازت لے کر میں دارالعلوم وقف کے متعلم شادان کے ساتھ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے مختلف مقامات کی سیر کے لیے نکلا۔ مختلف تاریخی مقامات کی زیارت کے علاوہ دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کی خدمت میں اپنی نئی مطبوعہ کتاب ’رشحاتِ ندیم‘ پیش کی۔پھر نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب سے کے دولت کدے پر حاضری ہوئی۔اتنے میں حضرت الاستاذ مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کا فون آیا، وہ دارالافتا میں منتظر تھے۔ ہم لوگ بعجلت حاضر ہوئے۔ راستے میں ان کے نیک فرزند اور ’معہدِ انور‘ کے استاذ مولانا بدرالاسلام قاسمی سے ملاقات ہوئی۔تقریباً ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ مشاورت کی میٹنگ ختم ہوئی تو حافظ اقبال صاحب نے فون پر بتایا کہ ارکانِ مجلسِ مشاورت ’اطیب المساجد‘ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ یہ دارالعلوم وقف دیوبند کے احاطے میں زیرِ تعمیر پُر شکوہ مسجد ہے۔اسے دیکھنے کے بعد ہم دارالقرآن آگئے۔ یہاں ظہرانے کا نظم تھا۔ ظہرانے سے فراغت پر نمازِ ظہر ادا کی اور کچھ دیر آرام کیا۔عصر کے بعد مولانا عبد اللہ قمر کی رہائش گاہ پر حضرت مولانا قمر الزماں صاحب کی ایک روحانی مجلس تھی۔یہاں انھوں نے مختصر خطاب کیا۔ مغرب کی اذان شروع ہوتے ہی مجلس برخاست کر دی گئی اور ہم نمازِ مغرب ادا کرنے قاضی مسجد چلے گئے۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر آستانۂ قاسمی پہنچے۔ حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ حضرت امام محمد قاسم نانوتویؒ کے وطن ’نانوتہ‘ میں عشاء بعد ہونے والے ایک پروگرام میں شریک ہونا تھا۔ہم عشاء سے قبل ہی پہنچ گئے۔پہنچتے ہی عشائیہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد وہاں کی تاریخی جامع مسجد(محلہ شیخ زادگان) میں عشاء کی نماز ادا کی۔ یہ مسجد امام محمد قاسم نانوتویؒ کے قدیم آبائی مکان سے متصل ہے۔مسجد میں ایک حجرہ ہے، جس پر لکھا ہوا ہے’ حجرہ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بانی دارالعلوم دیوبند‘۔ بعض احباب نے بتایا کہ ’مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی یہاں آٹھ سال قیام فرمایا ہے‘۔ عشاء کے فرضوں کے بعد کی سنتیں اور وتر ہم نے اسی حجرے میں ادا کیے۔محبی ڈاکٹر شکیب صاحب نے بتایا کہ ’یہی وہ جگہ ہے جہاں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے لیے اکابرین مشورے کیا کرتے تھے‘۔ حاجی امداد اللہ مہاجرِ مکیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،مولانا محمد قاسم نانوتویؒاور مولانا محمود حسن گنگوہیؒ وغیرہم نے بھارت کی پہلی جنگِ آزادی کے مشورے یہیں جمع ہو کر کیے ہیں۔وہاں سے دیر رات واپسی ہوئی۔
اگلے دن صبح اٹھ کر معمولات پورے کیے اور فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدِ رشید کی پہلی صف میں جا بیٹھے۔نماز کے بعد مولانا سید ارشد مدنی سے سلام و مصافحہ ہوا ۔اس کے بعد ہم بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب کی ملاقات کے لیے چلے گئے۔مختصر ملاقات کی اور واپس آکر آستانۂ قاسمی پر کچھ دیر آرام کیا۔آج علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے حفیدِ مکرم مولانا سید احمد خضر صاحب کے یہاں ناشتے کی دعوت تھی۔ انھوں نے مہمانوں کا ہی نہیں اس طفیلی کا بھی خوب اکرام کیا۔ خود اٹھ اٹھ کر انواع و اقسام کے کھانے پیش کرتے رہے۔ ہم ہاتھ دھونے کے لیے اٹھے تو خود تولیہ لے کر کھڑے ہو گئے۔ امیر المؤمنین فی الحدیث، کریم علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے کریم بیٹے، کے کریم بیٹے اور دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کی یہ اداآنکھوں میں رہ گئی۔ اُن سے یہ پہلی اور خوش گوار ملاقات تھی۔ناشتے کے بعد محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کی گاڑی میں حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ ہم دارالعلوم وقف چلے آئے۔ دفترِ اہتمام میں کچھ دیر رُکے۔ان سے مختلف امور پر گفتگو رہی، اس کے بعد ہم حجۃ الاسلام اکیڈمی میں محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کے دفتر میںآگئے۔گذشتہ کل ہوئی مشاورت کی میٹنگ میں حضرت مولانا قمر الزماں صاحب کی تجویز پر انھیں ارکانِ مجلس کی اتفاقِ رائے سے نیابتِ اہتمام کا عہدہ سپرد کیا گیا تھا۔یہ بہت مناسب فیصلہ معلوم ہوا۔ویسے تو وہ اس عہدے کی تمام ذمے داریاں ادا کر ہی رہے تھے، لیکن عہدے کے بغیر کام کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کے پاس مبارک باد دینے والوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد ہم ان سے اجازت لے کر آستانۂ قاسمی آگئے۔ظہر کی نماز قاضی مسجد میں ادا کی۔مسجد کے قریب رہائش پذیر مولانا شارق اور مولانا وامق صاحب کے یہاں ظہرانے کی دعوت تھی۔ ظہرانے کے بعد ہم سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر المدرسین حضرت مولانا یعقوب صاحبؒ نانوتوی کے مزار پر حاضر ہوئے۔آپؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن گنگوہیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، خاتم المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒاور مفتیِ اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانیؒ وغیرہم کے استاذ ہیں۔ آپ کی قبر نانوتے میں شمال کی جانب بہ راہ سہارنپور، باغِ نو میں ہے۔ہم نے وہیں حاضر ہوکر قبر کی زیارت کی اور ایصالِ ثواب کیا۔
اس کے بعد ہم تھانہ بھون اور حسن پور لوہاری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع جلال آبادمیں حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کی قبر پر پہنچے اور ایصالِ ثواب کیا۔ان کا شمار حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کے اجل خلفا میں ہوتا ہے اور وہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ (پاکستانی) کے استاذ اور شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے شیخِ اول تھے۔ پہلے مدرسہ ’مفتاح العلوم‘ کو ایک نظر دیکھا، پھر اس جگہ پہنچے جہاں ان کی خانقاہ ہوا کرتی تھی۔اس کے بعد تھانہ بھون روانہ ہو گئے۔ عصر کا وقت ہو گیا تھا۔ اولاً ’مسجدِ حکیم الامت‘ میں نماز ادا کی اور پھر حضرت تھانویؒ کی قبر پر پہنچ کر ایصالِ ثواب کیا۔بچپن سے حضرت تھانویؒ کی تصنیفات کے مطالعے کا شوق رہا ہے۔ ان کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مجددِ وقت نے اپنی ساری زندگی کس طرح دین کے احیا میں گذاری تھی۔اسی کا ثمرہ ہے کہ ان کی قبر یا مزار پر کسی قسم کا کوئی اہتمام دیکھنے کو نہیں ملا۔ دروازے پر کوئی نام لکھا ہوا ہے اور نہ قبر پر کوئی کتبہ لگا ہوا ہے۔ کوئی جاننے والا بتا دے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرت تھانویؒ کی قبر ہے۔یہاں سے فارغ ہو کر ہم نے حافظ ضامن شہیدؒ اور ان کے قریب آرام فرما حافظ عبد اللہ نانوتویؒ کی قبروں کی زیارت کی۔اس کے بعد ’خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ‘ حاضر ہوئے۔پہلے خانقاہ کی مسجد کی زیارت کی، جس پر لگے ہوئے کتبے سے معلوم ہوا کہ یہ مسجد باد شاہ عالم گیر کے زمانے کی یادگار ہے۔ اس پر سنِ تعمیر 1114ھ لکھا ہوا ہے۔ یہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی،حافظ ضامن شہیدؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خلوت گاہ نیز شیخ محمد تھانویؒ کی نشست گاہ کو بھی دیکھا۔ اس کے بعد خانقاہ کی چھت پر حضرت تھانویؒ کی مخصوص شمسی گھڑی دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، جسے سمجھ پانا ہمارے لیے دشوار تھا۔اس کے سامنے بنے ہوئے خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ اور دیگر سالکین کے کمرے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔
یہاں سے فراغت پر حضرت تھانویؒ کے مکان پر پہنچے۔ یہاں رہبر نے بہ شوق پورے مکان کی نہ صرف زیارت کروائی بلکہ مکان کے تمام حصوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔گھر کا نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت تھانویؒ کو فنِ تعمیر میں بھی دخل تھا۔گھر میں داخل ہونے پر نیچے تہ خانہ ہے، جس میں حضرت گرمی کے موسم میں آرام فرمایا کرتے تھے۔ اس کے اوپر استنجا خانہ اور غسل خانہ وغیرہ بنا ہوا ہے۔ اس کے اوپر ایک چھوٹا سا کمرہ ہے، جس پر لکھا ہوا ہے ’حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ نے اس کمرے میں تفسیر بیان القرآن تحریر فرمائی‘۔گھر کے صدر دروازے کے سامنے ایک چوکی ہے، جس پر حضرت سنن و نفل نمازیں ادا کیا کرتے تھے، وہاں لکھا ہوا ہے ’عبادت گاہ‘۔ اس کے پیچھے ایک کمرہ ہے، جس پر درج ہے ’حجرہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ‘۔اس سے منسلک ایک اسٹور روم ہے۔ اس کی چھت پر بھی ایک کمرہ بنا ہوا ہے۔ رہبر نے بتایا کہ اسی کمرے میں حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی ولادت ہوئی۔تھانہ بھون کے بعد گنگوہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں ’مسجدِحضوری‘ میں مغرب کی نماز ادا کی۔زمانۂ طفولیت سے قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی قبر پر حاضری کی تمنا تھی، اللہ تعالیٰ نے آج وہ بھی پوری فرما دی۔ یہاں فقیہ النفس کی بے نفسی کے اثرات نمایاں ہیں۔ قبر پر حاضر ہوئے تو ایک بار ایصالِ ثواب کرنے سے دل نہیں بھرا۔ مسجد کی طرف آئے اور پھر مکرر قبر کی زیارت کی اور ایصالِ ثواب کیا۔ان تمام مقامات کو دیکھنے کے بعد دیوبند واپسی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر نماز اور عشائیہ سے فارغ ہوئے۔ حضرت مہتمم صاحب نے اپنا قیمتی وقت عنایت فرمایا اور مختلف موضوعات پر شرکاے مجلس میں گفتگو ہوتی رہی۔ اکابرین کی پیہم صحبت اور خداداد صلاحیت کے سبب حضرت مہتمم صاحب جس موضوع پر بھی گفتگو کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ یہی ان کا موضوع ہے۔ دین و مذہب کے علاوہ سیاست و سماج اور تاریخ و ادب پر بھی ان کی اچھی نگاہ ہیں۔ رات کے بارہ بج گئے تو حافظ اقبال صاحب نے میرا نام لیتے ہوئے یہ کہہ کر مجلس برخاست کی کہ مولانا کو نیند آنے لگی ہے۔سب آرام گاہ کو چلے گئے۔
صبح اٹھ کر معمولات پورے کیے اور دارالعلوم کی مسجدِ قدیم میں فجر کی نماز ادا کرنےپہنچے۔ وہاں سے لوٹ کر کچھ دیر آرام کیا اور آٹھ بجےکے قریب غسل وغیرہ سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد عزیز القدر مفتی شہزاد کیرانوی،مفتی محمد اللہ اور مفتی اسعد صاحبان سے ملاقات ہوئی۔مفتی اسعد صاحب میری تحریریں پڑھتے رہے ہیں،ان کے ایک استفسار پر میں نے ایک مقالہ بھی لکھا تھا۔ انھوں نے احترام کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔اس کے بعد دفترِ اہتمام میں حضرت مولانا سفیان صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ان سے مختصر گفتگو کے بعد ہم محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کے دفتر میں جانے کے ارادے سے نکلے۔لیکن پہلے حضرت مولانا سید احمد خضر صاحب کے درس میں جا بیٹھے۔ کچھ دیر ان کے علمی فیضان سے مستفید ہوتے رہے اور پھر آہستہ سے نکل کر محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کے دفتر کی طرف آئے۔معلوم ہوا وہ مشغول ہیں، اس لیے ہم مولانا شاہد صاحب کے دفتر میں چلے گئے۔پھرمولانا عبد اللہ قمر کے پاس جا بیٹھے۔ اتنے میں حضرت مہتمم صاحب نے حافظ اقبال صاحب کو فون پر بتایا کہ رائے پور کے لیے نکلنا ہے۔رائے پور، شہر سہارنپور سے شمال کی جانب چھتیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مسلمان راج پوتوں اور شرفا کی ایک خوب صورت بستی ہے۔یہاں بڑی بڑی اہلِ فضل و کمال شخصیات رہی ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحبؒ کا شمار حضرت گنگوہیؒ کے اجل خلفا میں ہوتا ہے۔ان کے بعد اس خانقاہ کو حضرت مولاناعبد القادر ائے پوریؒ نے آباد رکھا۔رائے پور کی آخری بہار حضرت مفتی عبد القیوم صاحبؒ تھے۔ وہاں ہم ظہر سے کچھ دیر قبل پہنچ گئے تھے۔ کچھ دیر بیٹھے کہ جماعت کا وقت ہو گیا۔ مسجد پہنچ کر نماز ادا کی۔نماز کے بعد کھانے کا نظم تھا۔ کھانے کے بعد حضرت مولانا عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت مفتی عبد القیوم رائے پوریؒ کی قبروں پر پہنچ کر ایصالِ ثواب کیا۔ پھر کچھ دیر آرام کے بعد حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ ان کے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حافظ اقبال صاحب نے اُن سے بیعت کی اور عصر کی نماز پڑھ کر ہم دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔ مغرب کی نماز راستے میں سہارنپور کی ایک مسجد میں پڑھی۔ عشاء سے قبل آستانۂ قاسمی پہنچ گئے۔ قاضی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی،اور آستانۂ قاسمی آگئے۔ محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کو نیابتِ اہتمام سونپے جانے کی خوشی اور ان اعزاز میں آج مولانا شاہد قاسمی اور مولانا اسماعیل قاسمی نے دعوتِ طعام کا اہتمام کیا تھا۔ حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ ہم مولانا شاہد صاحب کے مکان پر پہنچے۔ عشائیے سے فراغت پر مکان کی چھت پر جا کر دیکھا تو استاتذہ کی بزم سجی ہوئی تھی۔ کچھ دیر محبی ڈاکٹر شکیب صاحب سے باتیں کرکے ہم قیام گاہ پر لوٹ آئے۔یہاںحضرت مہتمم صاحب نے اپنے دیرینہ تعلقات اور محبتوں کا اظہار کرتے ہوئے حافظ صاحب کو ہدایا پیش کیے اور ان کے طفیل اس طفیلی کو بھی قیمتی تحفے سے نوازا۔ مختصر گفتگو کے بعد وہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور ہم بھی محوِ استراحت ہو گئے۔
صبح اٹھ کر معمولات پورے کیے اور فجر کی نماز مسجدِ رشید میں ادا کی۔ ایک بار پھر مزارِ قاسمی پہنچے اور ایصالِ ثواب کیا۔واپسی کی تیاریاں مکمل کیں۔ ناشتہ تیار تھا۔محبی ڈاکٹر شکیب صاحب کے ساتھ نو بجے کے بعد ہم لوگ دیوبند سے دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔دورانِ سفر مدارس، طلبہ، نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم جیسے کئی موضوعات پر گفتگو رہی۔ محبی ڈاکٹر شکیب صاحب نے اس حقیر سے بھی بعض امور میں تبادلۂ خیال کیا اور مجھے اپنی گفتگو کا حصہ بنایا۔ کئی باتوں کو بغور سنا اور اس پر آیندہ لائحۂ عمل تیار کرنے کی یقین دہانی فرمائی۔اس موقع پر ان کے اخلاقِ کریمانہ کا خوب مشاہدہ ہوا۔ نسبی شرافت کے علاوہ ان کی ذاتی فکریں، جذبات، محنت اور لگن دیکھ کر قلبی مسرت ہوئی۔ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ایک بجے کے قریب انھوں نے ہمیں دہلی ائیرپورٹ پر پہنچا دیا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا: ’آپ حضرات کا کرم ہے کہ آپ نے اپنے مہمان کے طفیل اس طفیلی کے ساتھ بھی اکرام کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے‘۔ وہ فرمانے لگے: ’استغفر اللہ مولانا! کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ آپ سے مل کر بہت مسرت ہوئی‘۔ اس کے بعد انھوں نے وداع لی اور ہم نے ائیر پورٹ میں جانچ کے مراحل سے گزر کر نمازِ ظہر ادا کی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد جہاز میں سوار ہوئے اور عصر کے وقت اہلِ خانہ میں بہ خیر و عافیت پہنچ گئے۔والحمدللہ علی ذلک
(طویل سفر نامے سے تلخیص)