دعائے یونسؑ یعنی آیتِ کریمہ کی فضیلت اور برکتیں

دعائے یونسؑ یعنی آیتِ کریمہ کی فضیلت اور برکتیں

آیتِ کریمہ یہ ہے:لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

مولانا ندیم احمد انصاری

مکمل قرآن مجید اور اس کی تمام آیتیں شرف و کرامت کی حامل ہیں، یہ تو سبھی مانتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں عام طور سے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا والی آیت کو ’آیتِ کریمہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جب کچھ لوگ مل بیٹھ کر سوا لاکھ مرتبہ اس آیت کا ورد کرتے ہیں تو اسے ’آیتِ کریمہ کا ختم‘ کہا جاتا ہے۔عاملین اور روحانی معالجین کے یہاں اس عدد کے بہت سے خواص ہیں،اس لیے مشکل حالات میں اس کا معمول بنانے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے۔ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’مصیبتِ عامہ کے وقت جب بداَمنی پھیل جائے ، قتل وغارت کی وجہ سے جان ومال اور اولاد محفوظ نہ رہیں تو قنوتِ نازلہ پڑھنا حدیث وفقہ سے ثابت ہے۔ آیتِ کریمہ کا عمل بھی مفید ومجرب ہے۔ توبہ واستغفار کی کثرت کی جائے، یہ بھی حدیث میں ہے کہ جب کوئی اہم امر پیش آتا:بادِر الی الصلوٰۃِ۔ اس لیے آیتِ کریمہ کی توفیق ہوجائے تو اعتراض کی ضرورت نہیں۔‘ [فتاویٰ محمودیہ، ملخصاً] اس لیے اگر کسی التزام اور اہتمام کے بغیر اجتماعی طور پر مل بیٹھ کر آیتِ کریمہ کا ختم کرایا جائے اور اس میں کوئی غیر شرعی امر بھی شامل نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔احادیثِ مبارکہ میں گو اس کا تذکرہ نہیں، لیکن یہ عمل قرآن وحدیث کے معارض یا خلاف بھی نہیں، فی نفسہٖ مباح ہے۔

آیتِ کریمہ کے بعد اجتماعی دعا

حضرت حبیب بن مَسلَمہ فَہریؓمستجابُ الدعوات صحابی تھے، انھیں ایک لشکر کا امیر بنایا گیا۔ انھوں نے ملکِ روم جانے کے راستے تیار کرائے۔ جب دشمن کا سامنا ہوا تو انھوں نے لوگوں سے کہا: میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو جماعت ایک جگہ جمع ہو اور ان میں سے ایک دعا کرائے باقی سب آمین کہیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔[معجم کبیر طبرانی:]مجلس کے اختتام پر اجتماعی دعا ثابت ہے اور یہ اقرب الی الاجابۃ ہے، لیکن جہاں خصوصیت سے یہ دعا ثابت نہ ہو اس کو سنت سمجھ کر نہیں کرنا چاہیے۔[فتاویٰ دارالعلوم زکریا]

انسان کی ناشکری

انسان تنگی میں تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتاہے، لیکن فراخی میں غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کی اسی طبیعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :(مفہوم) اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوئے (ہر حالت میں) ہمیں پکارتے ہیں، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو اس طرح چل کھڑا ہوتا ہے جیسے کبھی اپنے آپ کو پہنچنے والی کسی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں اپنے کرتوت اسی طرح خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔[یونس]نیز فرمایا:(مفہوم)اور لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد جب ہم انھیں اپنی رحمت چکھا دیں تو اچانک ہماری آیتوں کے بارے میں مکر کرنے لگتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ اللہ مکر کی سزا جلد ہی دینے والا ہے ۔ بلاشبہ ہمارے فرشتے تمھارے مکر کے کاموں کو لکھ لیتے ہیں۔’وہ اللہ ہی تو ہے جو تمھیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوش گوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے، تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) (یا اللہ ! ) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔پھر جب اللہ انھیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ ‘ اے لوگو! تمھاری سرکشی تمھاری ہی جانوں پر ہے۔ دنیوی زندگی میں فائدہ اٹھا رہے ہو، پھر ہماری طرف تم کو لوٹ کر آنا ہے، ‘ سو ہم تمھیں بتادیں گے جو تم کرتے تھے۔ [یونس]باربار موقع دیے جانے کے باوجود جو لوگ ظلم کی راہ اپنانے سے باز نہیں آتے، اللہ تعالیٰ انھیں سزا ضرور دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:(مفہوم)اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کیا، جب کہ انھوں نے ظلم کیا۔ اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے ‘ اور وہ لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔ ہم اسی طرح مجرموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔ [یونس:13]مذکورہ بالا آیات میں انسان کی ناشکری کو تو بیان کیا گیا لیکن یہ نہیں فرمایا کہ ایسوں کی دعا وہ قبول نہیں فرماتا جو صرف تنگی میں اسے یاد کرتے ہیں۔ وہ کریم ذات تو ایسی ہے کہ جس نے زندگی میں کبھی اسے یاد نہ کیا ہو اور پھر زندگی کا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد کسی پریشانی کے عالم میں ہی سہی، اخلاص کے ساتھ اسے یاد کر لے، تو بھی وہ اس کی پکار کو سُنتا ہے۔

حضرت یونس ؑ کا قصہ

ترغیب و ترہیب کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں گذشتہ قوموں کے عبرت ناک قصے بیان کیے ہیں۔ من جملہ ان کے حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ بھی ہے، جو مختصراً اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینویٰ کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ وہ ماننے والے کہاں تھے؟ روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ آخر بددعا کی اور قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصّے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے۔ حکمِ الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا۔ ان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بددعا خالی نہیں جائے گی، کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلے گئے اور ماؤں کو بچوں سے جدا کردیا۔ میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا۔ بچے اور مائیں، آدمی اور جانور سب شور مچا رہے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تمام بستی والوں نے سچے دل سے توبہ کی۔ بت توڑ ڈالے۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے کہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کاربند ہوں۔ حق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا:فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ۔ بھلا کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایسے وقت ایمان لے آتی کہ اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچا سکتا ؟ البتہ صرف یونس کی قوم کے لوگ ایسے تھے۔ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے اٹھا لیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا۔ [یونس]

غم و مصیبت سے نجات

اُدھر حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ساحل پر اُگل دیااور ان کی قوم کو بھی غم اور مصیبت سے نجات دی، اسی طرح وہ سب مومنین کے ساتھ یہی معاملہ کرتا ہے۔ جب کہ صدق و اخلاص کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں اورپناہ مانگیں۔[معارف القرآن](اور حضرت یونس کے ساتھ جو یہ معاملہ پیش آیا تواس کا سبب صرف یہ ہے کہ) حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرایے میں ادا کرتا ہے، اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی، بلکہ جلالتِ شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگذاشت بھی کیوں کرتے ہیں! [تفسیرِ عثمانی،ملخصاً]

آیتِ کریمہ کی فضیلت

اس سبق آموز واقعے میں نصیحت و عبرت کے متعدد پہلو ہیں، لیکن اس وقت ہمارا مقصد صرف حضرت یونسؑ کی دعا کی برکات کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا ہے۔اس سلسلے میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذوالنون (حضرت یونس علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں کی جانے والی دعا ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعا قبول فرمائیں گے، اور وہ یہ ہے:[ترمذی]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here