رمضان صبر و غم خواری کا مہینہ، ندیم احمد انصاری
تمام مکارمِ اخلاق سے متصف ہونا اسلام میں نہایت پسندیدہ شئے ہے، اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو صبر کا دامن تھامے رکھتے اور ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک جو کہ نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا زمانہ ہے، اس مبارک مہینے میں ان نیک صفات کے بھی بہت زیادہ اہتمام کی ضرورت ہے، اس لیے بھی کہ جب انسان بھوکا پیاسا ہوتا ہے تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، جس میں ذرا سی حرکت ہو تو وہ ظرف سے باہر چھلک پڑتاہے۔ اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو روزے دار ہو وہ خود کو قابو میں رکھے اور کوئی بھی نا شائستہ بات اپنی زبان سے نہ نکالے، حتی کہ کوئی دوسرا اس سے لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دے، میں روزے سے ہوں، اورغم خواری، وہ تو انسانی زندگی میں عمدہ ترین نیکی ہے، اس لیے کہ اس سےآپسی محبت میں اضافہ ہوتا اور معاشرے کا سکون قائم رہتا ہے۔
رسول اللہ ﷺکاارشادِ گرامی ہے؛یہ مہینہ (رمضان)صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ غم خواری کا ہے۔اس مہینےمیں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرائے،یہ اس کے لیے گناہوں سے معافی اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اس روزے دار کے ثواب میں سے کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !ہم میں سے ہر شخص تواتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو افطار کرائے! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص افطار کے موقع پر کسی روزے دار کو ایک کھجور کھلا دے یا پانی کا ایک گھونٹ پلا دے یا ایک گھونٹ لسّی پلا دے…اللہ تعالیٰ اس کو بھی یہ ثواب عنایت فرما دیتے ہیں…جو شخص کسی روزے دار کو افطار میں پانی پلائے،اللہ تعالیٰ اسے(قیامت کے دن)میری حوض(کوثر) سے پانی پلائیں گے(جس کے بعد)اسے (بالکل )پیاس نہیں لگے گی،یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو…جس نے اپنی باندی یا غلام سے اس ماہ میں بوجھ ہلکا کر دیا،اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں اور( جہنم)کی آگ سے آزاد فرما دیتے ہیں۔(ابن خزیمہ ، شعب الایمان)
یہاں’صبر کا مہینہ ‘سے مراد یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے مسلمان اس ماہ میں کھانے پینے اور دیگر بہت سی جائز چیزوں سے بھی رکے رہتے ہیں،صرف اس لیے کہ ان کے رب نے انھیں یہ حکم دیا ہے اور’ غم خواری کامہینہ‘ سے مراد یہ ہے کہ چوں کہ مسلمان روزے کی حالت میں اپنے رب کے حکم سے بھوکا پیاسا رہتا ہے،اس سے اس کے دل میں مسکینوں اور غریبوں کے دردوتکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ’بوجھ ہلکا کرنا‘اس سے مراد یہ ہے کہ جو افراد اس کی خدمت وکام کاج میں لگے ہوئے ہوں،خواہ وہ غلام،باندی،نوکر چاکر یا بیوی بچے وغیرہ ہوں؛ان کے کام اور ذمّے داری کو کم کردے یا ان کا ہاتھ بنٹائے اوران کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرے۔ہونا تو یوں چاہیے تھا لیکن آج بہت سے لوگ اس پر عمل تو کیا کرتے بلکہ ظالم خود روزہ نہیں رکھتے اور اپنے ماتحت روزے داروں سے سختی کا معاملہ کرتے ہیں۔انھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے کہ جس بادشاہ نے تمھیں ان پر قابو دیا ہے،اسی کا قابو تم پر اور سب پر چلتا ہے،کب کس کی پکڑ کر لے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔یاد رکھیے جو رحمٰن کے بندوں پر رحم نہیں کرتا، رحمٰن بھی ان ظالموں پر رحم نہیں کرتا۔
مولانا محمد زکریا کاندھلویؒرقم طراز ہیں:
حضور ﷺ نے ایک چیز کی طرف خصوصیت سے رغبت دلائی ہے کہ آقا لوگ اپنے ملازموں پر اس مہینے میں تخفیف رکھیں،اس لیے کہ آخر وہ بھی روزے دار ہیں،کام کی زیادتی سے ان کو روزہ میں دِقّت ہوگی۔البتہ اگر کام زیادہ ہوتو اس میں مضایقہ نہیں کہ رمضان کے لیے ہنگامی ملازم ایک آدھ بڑھا لے،مگر جب ہی کہ ملازم روزے دار بھی ہوورنہ اس کے لیے رمضان بے رمضان برابر،اور اس ظلم و بے غیرتی کا تو ذکر ہی کیا کہ خود روزہ نہ رکھ کر بے حیا منہ سے روزہ دار ملازموں سے کام لے اور نماز،روزے کی وجہ سے اگر تعمیل میں کچھ تساہل(سستی یا کمی) ہو تو برسنے لگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور عنقریب ظالم لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسی(مصیبت) کی جگہ لوٹ کر جائیں گے(مراد جہنم ہے)۔(فضائل رمضان)
آئیے ہم بھی ان باتوں پر غور کریں اور اگر ہم ان میں سے کسی باب میں کوتاہی کا شکار ہیں تو توبہ کریں،ایسا نہ ہو کہ ہمارے ان گناہوں کی وجہ سے رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی ہم محروم رہ جائیںاور یہ مبارک مہینہ ہماری مغفرت کے بجائے ،پکڑ کا سبب بن جائے۔رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو ذہن نشین رکھیں جس میں بر سرِ منبر اس بد دعا کا ذکر ہے کہ ناک خاک آلودہ ہو وہ شخص،جسے رمضان کا مبارک مہینہ ملے اور وہ اس میں نیک اعمال کے ذریعے اپنی مغفرت نہ کرائے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس رمضان کو ہماری مغفرت کا ذریعہ بنائے اورہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین