عورت کی حالت اسلام سے قبل

aurat-ki-halat-islam-se-qab عورتوں کی حالت اسلام سے قبل

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

(قدیم ہندوستان وغیرہ میں عورتوں کی جو حالت تھی اور انھیں کس طرح داسی و ستی پرتھا کے نام پر ستایا جاتا تھا، اس سے شاید کوئی پڑھا لکھا ناواقف ہوگا۔ درجِ ذیل تحریر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فی زمانہ ہند میں جو لوگ خواتین کے حقوق کا راگ آلاپتے اور اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، انھیں باور کرایا جائے کہ اسلام کی آمد سے قبل عرب وغیرہ میں بھی عورتوں کی کیا حالت تھی اور اسلام نے کس طرح ان سب کا قلع قمع کر عورت کے سر پر عزت کا تاج رکھا۔ ندیم احمد انصاری)

[اسلام کی آمد سے قبل] عورتوں کی حالت نہایت خراب تھی، موروث کے متروکہ میں سے ان کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ عرب کا قول تھا کہ میراث اس کا حق ہے، جو تلوار پکڑ سکتا ہے، اسی بنا پر چھوٹے بچّے بھی وراثت سے محروم رہتے تھے۔

۹لڑائیوں میں مفتوحہ قبیلے کی عورتیں عین میدانِ جنگ میں فاتحین کے تصرف میں آجاتیں اگر صلح ہو جاتی اور عورتیں واپس دے دی جاتیں تو باوجود اس کے کہ سب کے ناموس برباد ہو چکے ہوتے، بہ دستور گھروں میں لے لی جاتیں اور یہ کوئی عیب نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ فاتحین اس تصرف پر فخر کرتے اور اس کو اشعار میں ظاہر کرتے۔ بنو ضبۃ نے جب بنو عامر پر فتح پائی تو ان کی عورتوں کو عین میدانِ جنگ میں رسوا کیا، فرزوق نے اس شعر میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے؎

فظلت و ظلت یرکبون ھبیرھا

و لیس لھم إلا عوالیھا ستر

تو لوگ عورتوں پر متصرف ہوگئے اور کوئی

اگر پردہ بیچ میں تھا تو وہ صرف نیزے تھے۔

قبیلۂ قیس اور بنو دارم میں جو معرکہ ہوا، وہ رحرحان کے نام سے مشہور ہے، اس کی نسبت جریر کہتا ہے؎

نکحت نسائھم بغیر مھور

ان کی عورتوں سے بغیر مہر کے نکاح کیا۔

عمر بن معد یکرب، عرب کے مشہور بہادر اور شاعر تھے، ان کی بہن ریحانہ کی عصمت اسی طرح جب برباد ہوئی تو عمرو نے کہا؎

أمن ریحانۃ الداعی السمیع یؤرقنی و أصحابی ھجوعٌ إذ لم تستطع امرا فدعۃ و جاورہ إلی ما تستطیع۔

کیا ریحانہ کی طرف سے کوئی پکارنے والا، سننے والا ہے جس نے گو مجھے بے خواب رکھا ہے، لیکن میرے احباب سوتے ہیں، اگر تم کسی کا کام نہ کر سکو تو اس کو چھوڑ کر وہ کرو جو کر سکتے ہو۔

طلاق کے لیے کوئی مدت اور عدت نہ تھی یعنی جب تک شوہر چاہے، عورت نہ شوہر کے پاس رہ سکتی تھی، نہ کسی اور سے شادی کر سکتی تھی۔

عورت کا جو مہر مقرر ہوتا وہ باپ کو ملتا، عورت کو اس سے سروکار نہ ہوتا۔نکاح کی کوئی حد نہ تھی، غیلانؓ بن سلمہ ثقفیؓ جب اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں، وہب اسدیؓ نے اسلام قبول کیا تو آٹھ بیویاں ان کے عقدِ نکاح میں تھیں۔

دو حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرتے اور ایام کے زمانے میں عورتوں کو الگ کر دیتے اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیتے۔

باپ مر جاتا تو اس کی کل بیویاں (بجز حقیقی ماں کے) تصرف میں آتیں یعنی عورت بیوہ ہونے کے بعد اپنے شوہر کے وارثوں کی ملک سمجھی جاتی تھی، وہ اگر آکر بیوہ پر چادر ڈال دیتا تو وہ اس کی جائز مدخولہ بن جاتی۔

عورت جب بیوہ ہو جاتی تو گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کوٹھری رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کو دیے جاتے، خوشبو وغیرہ قسم کی کوئی چیز استعمال نہ کر سکتی، اس حالت کے ساتھ جب پورا سال گزر جاتا تو ایک بکری یا گدھا لاتے، اس سے وہ اپنے جسم کو مس کرتی پھر کوٹھری سے باہر نکلتی اور اس کے ہاتھ میں مینگنی دی جاتی، وہ مینگنی کو پھینک دیتی، اس وقت سوگ سے نکل آتی اور قدیم حالت قائم ہوتی۔

غرض مجموعی حیثیت سے عورت بد ترین مخلوق اور ہر قسم کے جبر و تعدی کا تختہ گاہِ مشق تھی، رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی، اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوںمیں چھپتا پھرتا۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى، ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا، وَهُوَ كَظِيمٌ۔ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ،أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوْنٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ، أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصّے کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ اس خوش خبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اس کو قبول کرے یا اسےزندہ زمین میں دفن کردے۔(النحل:58-59)

ابو حمزہ ایک رئیس تھا، اس کے لڑکی پیدا ہوئی تو اس نے گھر میں رہنا چھوڑ دیا، اس پر اس کی بیوی یہ اشعار پڑھ پڑھ کر بچّی کو لوریاں دیتی تھی؎

مالا بی حمزۃ لا یأتینا

یبیت فی بیت التی تلینا

غضبان إلا نلد إلینا

تاللہ ما ذاک بایدنا

ونحن کالزرع لزارعینا

تنبت ما تدزرعوہ فینا

ابو حمزہ کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے پاس نہیں آتا۔

اور ہمسایے کے گھر میں رات بسر کرتا ہے۔

اس پر ناراض ہے کہ ہم بیٹے نہیں جنتے۔

خدا کی قسم یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں۔

ہم بہ طور کھیت کے ہیں۔

ہم میں جو بویا جائے گا، وہی اُگے گا۔

رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہو گئی، لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو میدان میں لے جا کر گڑھا کھودتے اور زندہ گاڑ دیتے۔ ایک صاحب نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر ظاہر کیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کیں۔(ماخوذ از سیرۃ النبی:4/159-160)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here