زکوٰۃ کے مصرف سے متعلق چند مسائل

زکوٰۃ کے مصرف سے متعلق چند مسائل

مصرف اور غیر مصرف کی چند صورتیں

ز ۝۱ اگرکوئی شخص صاحب نصاب ہواور فی الحال گھر خرچ میں تنگی ہے، تو کیا اس کو زکوۃ کا پیسہ دے سکتے ہیں؟۝۲صاحب نصاب کسے کہتے ہیں؟ اگر اس پر تفصیلی خلاصہ کردیتے تو زکاۃ کی رقم ادا کرنے میں عافیت ہوتی۝۳کسی کو کاروبار کرنے کے لیے بھی دے سکتے ہیں تو کتنی رقم دے سکتے ہیں؟۝۴ایک گھرانہ ایسا ہے جس کے گھر کے آدمی دین سے دور ہے، اور سٹہ کھیلتے ہیں؛ گھر کے خرچ کے لیے اسے زکاۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟۝۵ وطن میں ایک مدرسہ ہے، جس میں ۷۰؍ طلبا صرف عربی تعلیم حاصل کرکے گھر چلے جاتے ہیں، وہاں پر کھانے یا رہنے کا کسی قسم کا نظم نہیں ہے، تو کیا وہاں کے مدرس کو یا اَور اخراجات کے لیے زکاۃ کا پیسہ دے سکتے ہیں؟

ل۝۱جو آدمی صاحبِ نصاب ہو، اس کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۝۲جس کے پاس ساڑھے باون تولہ (۶۱۲گرام ۳۵؍ملی گرام)چاندی یا ساڑھے سات تولہ (۸۷ گرام ۷۴۹ملی گرام)سونا یا اتنی ہی قیمت کا سوداگری کا اسباب ہو، اس کو شریعت میں مال دار کہتے ہیں، ایسے شخص کو زکوۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اور اس کو زکوۃ کا پیسہ لینا اور کھانا بھی حلال نہیں۔ اسی طرح جس کے پاس اتنی ہی قیمت کا کوئی مال ہوتو سوداگری کا اسباب تو نہیں، لیکن ضرورت سے زائد ہے؛ وہ بھی مال دار ہے، ایسے شخص کو بھی زکوۃ کا پیسہ دینا درست نہیں، اگرچہ خود اس قسم کے مال دار پر زکوۃ واجب نہیں۔ اور جس کے پاس اتنا مال نہیں بلکہ تھوڑا مال ہے، یا کچھ بھی نہیں یعنی ایک دن کے گزارے کے موافق بھی نہیں؛ اس کو غریب کہتے ہیں، ایسے لوگوں کو زکوۃ کا پیسہ دینا درست ہے اور ان لوگوں کو لینا بھی درست ہے۔ رہنے کاگھر اور پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے لیے نوکر چاکر اور گھر گرھستی جو اکثرکام میں رہتی ہے، یہ سب ضروری اسباب میں داخل ہیں، اس کے ہونے سے مال دار نہیں ہوتا، چاہے جتنی قیمت کی ہو، اس لیے اس کو زکوۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔ کسی کے پاس پانچ مکان ہیں جن کو کرایہ پر چلاتا ہے اور اس کی آمدنی سے گزر کرتا ہے، لیکن بال بچے اور گھر میں کھانے پینے والے لوگ اتنے زیادہ ہیں کہ اچھی طرح بسر نہیں ہوتی اور تنگی رہتی ہے اور اس کے پاس کوئی ایسا مال بھی نہیں جس میں زکوۃ واجب (مثلاً چاندی، سونا، سامانِ تجارت)،تو ایسے شخص کو بھی زکوۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔ (بہشتی زیور ۳؍۳۱)۝۳جو صاحبِ نصاب نہ ہو اس کو زکوۃ کی رقم کاروبار کرنے کے لیے مالک بناکر دے سکتے ہیں۔ اتنی رقم دے کہ وہ صاحبِ نصاب نہ بن جائے۝۴دے سکتے ہیں۝۵وہ مدرِس اگر صاحبِ نصاب نہیں ہے تو اس کو زکوۃ کی رقم ادائیگیِ زکوۃ کے لیے مالک بناکر دی جاسکتی ہے، تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی۔ مدرسے کے اخراجات کے لیے دینا درست نہیں ہے۔

کیا مقروض مستحقِ زکوۃ ہے؟

ز اگر کسی کے پاس کوئی ذریعۂ معاش نہیں ہے، تو وہ آدمی رکشا ٹیکسی یا چھوٹی موٹی دوکان یا بنا بنا ہوا گھر ادھار خریدے، یا کسی کے پاس سے وہ رقم لے کر خریدے، پھر وہ مقروض ہوجائے تو زکوۃ کی رقم کا مالک بنادےاور وہ اپنا قرض پورا کردے تو یہ شرعاً کیسا ہے؟

لمقروض کاقرض ادا کرنے کے لیے رقمِ زکوۃ اس کو دی جاسکتی ہے۔

مقدّمے کے لیے زکوۃ دینا

ز ایک شخص مقدمہ کے لیے زکوۃ کی رقم طلب کرتا ہے، حالاں کہ نہ اس نے کبھی زکوۃ لی اور نہ دی ہے، اگر وہ کسی سے مقدمہ کے لیے زکوۃ طلب کرتا ہے تو زکوۃ کا مستحق ہے یا نہیں؟ اور زکوۃ دینے والے کے ذمہ سے زکوۃ ساقط ہوگی اور وہ بری الذمہ ہو جائے گا؟

لاگر اس کے پاس اپنی اصلی ضرورتوں سے زائد اتنا مال نہیں ہے جس کی قیمت ۶۱۳ (چھ سو تیرہ) گرام چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں اور اس صورت میں اس کو دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

مدرسے کے طلبہ کو زکوٰۃ دینا

ز مدرسہ میں جو رقم بطورزکوٰۃ کے دی جاتی ہے، اس کے حیلہ کے لیے غریب طلباء کو دینا ہی ضروری ہے یا مالدار کو بھی دے کرکے حیلہ کر سکتے ہیں؟ نیز جو رقم للہ دی گئی ہے، اس رقم کے ذریعہ سے مدرسہ کی بلڈنگ وغیرہ باندھ سکتے ہیں یابلڈنگ کے لیے مستقل چندہ کرنا ضروری ہے؟

لوہ رقم جس طالب علم کو دی جارہی ہے اس کا مستحقِ زکوٰۃ ہونا ضروری ہے، اب اگر وہ طالبِ علم بالغ ہےتو اتنا کافی ہے کہ خود اس کی ملکیت میں بقدرِ نصاب کچھ نہ ہو، چاہے اس کا باپ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر وہ طالبِ علم نابالغ ہے تو اس صورت میں اگر اس کا باپ مالدار (مالکِ نصاب) ہے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ولا إلی طفله بخلاف ولدہ الکبیر۔ (درمختار) (قوله ولا إلی طفله) أي الغنی، فیصرف إلی البالغ ولو ذکرا صحیحا، قهستانی۔ فأفاد أن المراد بالطفل غیر البالغ ذکرا کا ن أو انثیٰ في عیال أبیه أو لا علی الاصح۔ (شامی ۲ /۷۲)٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here