مدارس اور زکوٰۃ سے متعلق بعض مسائل

مدارس اور زکوٰۃ سے متعلق بعض مسائل

سُفرا کوزکوۃ دینے سے قبل اطمینان کر لے

زبفضلہ تعالیٰ ہمارے یہاںسالانہ زکوۃ کی رقم بہت زیادہ ہوتی ہے، ہم لوگ بہت سارے مدارس کے سفیروں(چندہ کرنے والوں)کوسالانہ خرچ کے اعتبار سے مختلف (۵۰۰،۴۰۰، ۲۰۰)روپئے دیتے ہیں؛ لیکن بہت سے ہمارے (پڑوسی) اعتراض کرتے ہیںکہ بہت سوں کودینے سے کیافائدہ؟بلکہ کم کوزیادہ رقم عطا کرو؛ تاکہ ان کافائدہ ہو،حالاں کہ اس زمانہ میںسفراء پراعتبارکم ہوتاہے؛ لہٰذا اس صورت میں ہمیں کیا کرناچاہیے؟ مشورہ سے مطلع فرمائیں۔

لحضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:اگرکسی شخص نے کسی شخص کواپنے گمان کے مطابق مستحق اورمصرف زکوۃ سمجھ کرزکوۃ دے دی، بعد میں معلوم ہواکہ وہ اسی کاغلام یاکافرتھا،توزکوۃ ادانہیں ہوگی، دوبارہ دینی چاہیے، کیوں کہ غلام کی ملکیت توآقاہی کی ملکیت ہوتی ہے، وہ اس کی ملک سے نکلاہی نہیں، اس لیے زکوۃ ادانہیںہوئی اورکافرزکوۃکا مصرف نہیںہے۔اس کے علاوہ اگربعدمیںیہ ثابت ہوکہ جس کوزکوۃ دی گئی ہے وہ مال دار یاسید ہاشمی یااپناباپ یابیٹایابیوی یاشوہرہے، توزکوۃ کے اعادےکی ضرورت نہیں کیوںکہ رقمِ زکوۃ اس کی ملک سے نکل کرمحل ثواب میںپہنچ چکی ہے اورتعینِ مصرف میںجوغلطی کسی اندھیرے یامغالطہ کی وجہ سے ہوگئی، وہ معاف ہے۔(درمختار)(معارف القرآن ۴/۴۱۳)

’آپ کے مسائل اوران کاحل‘میںہے:زکوۃ اداکرتے وقت اگرگمان غالب تھاکہ یہ شخص زکوۃ کامستحق ہے، توزکوۃ اداہوگئی۔ (آپ کے مسائل اوران کاحل۳/۳۹۸)اس لیے سُفرا کے متعلق جب تک ان کے صحیح ہونے کایقین یاغالب گمان نہ ہو، ان کوزکوۃ نہ دی جائے۔رہامشورہ دینے والوںکاآپ حضرات کویہ مشورہ دینا-کہ مختلف جگہ پرتھوڑا تھوڑا دینے کے بجائے ایک جگہ پرزیادہ دیاجائے-یہ ان کی ایک سوچ ہے، اگرآپ کو ان کایہ مشورہ ٹھیک معلوم ہوتاہے توعمل کرسکتے ہیں،کوئی ضروری نہیں۔ ویسے بھی آپ تنہاان کو زکوۃ کی رقم نہیںدے رہے ہیں بلکہ اورحضرات بھی دیتے ہیں، اوراسی طرح وہ بھی تنہا آپ سے زکوۃ وصول نہیںکررہے ہیں بلکہ اورلوگوںکے پاس بھی جاتے ہیں۔

زکوۃ کا استعمال کس نوع کے طلبہ کے لیے
ززید کہتا ہے کہ بیت المال (زکوۃ) کا روپیہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے وہی لڑکے کھاسکتے ہیں جو بالکل نادار اور مفلس ہوں، اور جن کے والدین نہ ہو، اور جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ حیثیت والے ہیں اور وہ لوگ اب لڑکوں کو تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل کردے تو ان لڑکوں کے لیے زکوۃ کا پیسہ کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے، اور ان کے والدین کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زکوۃ کا پیسہ کھلاوے، لہٰذا ان کے والدین سے ان لڑکوں کی فیس طعام وصول کی جائے گی، اگر فیس ادا نہ کرے گا تو گویا وہ اپنے لڑکوں کو ناجائز پیسہ کھلارہا ہے جو گناہ کا سبب ہے، اور اس کے بالمقابل عمر کہتا ہے کہ مدرسہ میں داخل ہونے والے ہرلڑکے کے لیے بلاکراہت مدرسہ کاکھانا پینا بالکل جائز ہے، کوئی گناہ والی بات نہیں ہے؛ کیوں کہ مدرسہ میں آنے کے بعد سب بچے برابر ہیں چاہے غریب کا لڑکا ہو یالاکھ پتی، کروڑ پتی کا لڑکا ہو، سب کھا سکتے ہیں، ہاں اگر ان کے والدین بخوشی بچوں کا خرچہ دینا چاہیں تو ایک سے لاکھ تک مدرسہ میں دے سکتے ہیں، مدرسہ ان کے اوپر زبردستی نہیں کرے گا کہ آپ کو اپنے بچوںکی فیس ادا کرنی ہوگی، نہیں تو آپ کے بچوں کے لیے مدرسہ میں کھانا وغیرہ بالکل ناجائز ہے، اب ان میں کون سی بات درست ہے؟

لجو طالبِ علم بالغ ہونے کے ساتھ خود صاحبِ نصاب نہیں ہے، تو اس کے لیے زکوۃ لینادرست ہے، چاہے اس کا باپ غنی ہو اور صاحبِ نصاب کیوں نہ ہو، البتہ اگر وہ طالب علم بالغ نہیں ہے بلکہ نابالغ ہے اور اس کا باپ غنی اور صاحبِ نصاب ہے تو اس کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے۔
درمختار میں ہے:ولا إلی طفله (أي الغني) بخلاف ولده الکبیر وأبیه وامرأته الفقراء وطفل الغنیة، فیجوز لانتفاء المانع۔ (درمختار۲/ ۷۲)اس کی شرح کرتے هہوئے علامہ شامی رقمطراز ہیں:(قوله:ولا إلی طفله) أي الغني فیصرف إلی البالغ لو ذکرا صحیحا۔ قسھتاني۔ فأفاد أن المراد بالطفل غیر بالغ ذکرا کان أو أنثی، في عیال أبیه أو لا، علی الأصح؛ لما أنه یعد غنیا بغناه۔ نھر۔ (قوله: بخلاف ولده الکبیر) أي البالغ کما مر الخ۔. (شامی۲ /۷۲)

نابالغ بچوں کے ذریعے تملیکِ زکوۃ

ز نابالغ بچوں کی تملیک کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کی تملیک کا اعتبار ہے؟

لنابالغ بچوں کا باپ اگر غنی (صاحب نصاب) ہے تو ان کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے اور اگر ان کے باپ فقرا ومساکین ہیں تو ان کو مالک بنانے سے زکوۃ ادا ہوجائےگی۔ (درمختار شامی ۲/۷۲)لیکن اس کے بعد وہ رقم ان نابالغ بچوں سے فیس کے طور پر تو وصول کی جاسکتی ہےلیکن ان کی طرف سے بطورِ عطیہ مدرسہ میں جمع نہیں کی جاسکتی، اس لیے کہ نابالغ بچہ کا یہ تصرف درست نہیں۔ (کما ھو مصرح فی کتاب الحجر والمأذون من الفقه)

زکوۃ کی رقم سے تعمیراتی کام

ز زکوۃ کی رقم سے بیرونی طلبہ کے لیے دارالاقامہ کی تعمیر درست ہے یا غیر درست؟

لزکوۃ کی رقم براہِ راست بغیر تملیکِ شرعی، دارالاقامہ یاکسی اَور تعمیراتی کام میں استعمال کرنا درست نہیں۔ (شامی ۲/۶۸)٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here