مفتی ندیم احمد انصاری
دو لوگوں کے بیچ میں نہ بیٹھیں
بعض مرتبہ دو لوگ بیٹھ کر کوئی مخفی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، اس حالت میں بلا اجازت ان کے درمیان میں جا کر بیٹھ جانا ممنوع ہے، اس سے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض مرتبہ ساس اپنے بیٹے اور بہو کے درمیان تو بعض مرتبہ بہو اپنے شوہر اور ساس کے درمیان بلااجازت جا کر بیٹھ جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ اس کا حق ہے کہ ہر بات اس کے سامنے کی جائے، اس سے ایسے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھ جائے۔(ترمذی)حضرت سعید بن ابو سعیدکہتے ہیں، میں نے حضرت ابن عمرؓکو دیکھا: وہ کسی آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے، میں نے بھی اپنا سر ان دونوں کے درمیان داخل کردیا، تو حضرت ابن عمرؓنے میرے سینے پر مارا اور فرمایا : جب تم دو آدمیوں کو سرگوشی کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے درمیان مت گھسو، الا یہ کہ اجازت لے لو۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر نہ بیٹھیں
جب کوئی پہلے سے کسی جگہ بیٹھا ہوا ہو تو بعد میں آنے والے کو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ بعض ساسیں صرف دھاک جمانے کے لیے سب کے سامنے بہو کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں بیٹھ جاتی ہیں، ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی کبھی کبیدگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ ’ترمذی شریف‘ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے۔(ترمذی) ’ابوداود شریف‘ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا تو وہاں موجود ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا، وہ آنے والا شخص اس جگہ بیٹھنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع فرما دیا۔(ابوداود) حضرت سعید بن ابوالحسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرہؓکسی گواہی کے معاملے میں ہمارے پاس آئے تو ان کی آمد پر ایک شخص ان کے لیے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا، حضرت ابوبکرہؓنے اس جگہ بیٹھنے سے انکار کردیا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔(ابوداود)
بلااجازت داخل نہ ہوں
بعض ساسیں بہو بیٹے کے کمرے میں تنہائی کے وقت میں بھی بلااجازت داخل ہونے کو اپنا حق سمجھتی ہیں، یہ بےحیائی اور گناہ کی بات ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے، امید ہے کہ تم خیال رکھو گے۔ (النور) مفسرین نے لکھا ہے کہ جس گھر میں صرف اپنی بیوی رہتی ہو اس میں داخل ہونے کے لیے اگرچہ استیذان (اجازت طلب کرنا) واجب نہیں مگر مستحب اور طریقِ سنت یہ ہے کہ وہاں بھی اچانک بغیر کسی اطلاع کے اندر نہ جائے بلکہ داخل ہونے سے پہلے اپنے پاؤں کی آہٹ سے یا کھنکار سے کسی طرح پہلے باخبر کر دے، پھر داخل ہو۔(معارف القرآن) جب بیوی کے کمرے میں داخل ہونے کا یہ حکم ہے تو بہو بیٹے کے کمرے میں بلااجازت داخل ہونا کیسے درست ہوگا؟حضرت ثوبانؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر جھانکے، اگر اس نے (جھانک کر) دیکھ لیا تو گویا کہ وہ اس کے گھر میں داخل ہوگیا۔ (ترمذی) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی قوم کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکا تو اس نے ان کے لیے اپنی آنکھ کو پھوڑ دینا حلال و جائز کردیا۔ (مسلم) حضرت ابوموسی اشعریؓنے ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطابؓسے داخلے کی اجازت چاہی، انھیں اجازت نہ ملی، شاید حضرت عمر ؓ مشغول تھے، تو حضرت ابوموسیؓواپس تشریف لے گئے، جب حضرت عمرؓفارغ ہوئے تو فرمایا: میں نے عبداللہ بن قیس کی آواز نہ سنی تھی، انھیں اجازت دے دو۔ کہا گیا: وہ تو واپس چلے گئے! حضرت عمر ؓ نے انھیں بلوایا تو انھوں نے فرمایا: ہمیں اس بات کا حکم دیا جاتا تھا (کہ اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ)۔(بخاری)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تب بھی ان میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمھیں اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ! تو واپس چلے جاؤ!یہی تمھارے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے، اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے۔ (النور)اس آیت میں آنے والے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر استیذان کرنے پر آپ کو اجازت نہ ملے اور کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو کہنے والے کو معذور سمجھو اور خوش دلی کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ، برا نہ مانو۔ اگر کسی کے دروازے پر جا کر استیذان کیا اور اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سنت یہ ہے کہ دوبارہ پھر استیذان کرے، اور پھر بھی جواب نہ آئے تو تیسری مرتبہ کرے، اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آئے تو اس کا حکم وہی ہے جو ﴿ارْجِعُوْا﴾ کا ہے یعنی لوٹ جانا چاہیے، کیوں کہ تین مرتبہ کہنے سے تقریباً یہ تو معتین ہوجاتا ہے کہ آواز سن لی مگر یا تو وہ شخص ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتایا پھر اس کو اس وقت ملنا منظور نہیں، دونوں حالتوں میں وہیں جمے رہنا اور مسلسل دستک وغیرہ دیتے رہنا بھی موجبِ ایذا ہے، جس سے بچنا واجب ہے۔(ماخوذ از معارف القرآن)
ایک کو چھوڑ کر دو لوگ باتیں نہ کریں
جب کہیں تین ہی لوگ موجود ہوں، اس وقت ایک کو چھوڑ کر دو لوگوں کا آپس میں سرگوشی کرنا منع ہے، اس سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں اور تیسرے کا دل دکھتا ہے، اس لیے ساس اور بہو کو بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حضرت شقیق بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم تین آدمی ہوں تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی نہ کریں۔ سفیان نے اپنی روایت میں کہا: تیسرے کو چھوڑ کردو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں، اس سے وہ (تیسرا آدمی) غم گین ہوگا۔ حضرت نبی کریم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ ایک کو چھوڑ کردو آدمی سرگوشی نہ کریں کیوں کہ اس سے مومن کو تکلیف ہوتی ہے اور مومن کو تکلیف دینا اللہ کو پسند نہیں۔(ترمذی)
ایک دوسرے کے لیے دعا کرتی رہیں
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں بھی ایک انسان ہوں، جیسے دوسرے لوگوں کو غصہ آتا ہے مجھے بھی آتا ہے، (اے اللہ) میں نے جس شخص کو بھی کوئی ایذا پہنچائی ہو یا کوڑا مارا ہو، اسے اس شخص کے لیے باعثِ تزکیہ و رحمت بنا دے۔ (مسند احمد) اس لیے ساس بہو کو بھی چاہیے کہ اللہ کے حضور یہ دعا کرتی رہیں کہ ان سے دوسرے کے حق میں جو کوتاہی ہوئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما کر حق دار کو راضی فرما دیں اور اجر سے نوازیں۔احادیث میں ایک دوسرے کے لیے غائنابہ دعا کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، دعا کرنے والا دوسرے کے لیے جو دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اسے بھی وہی عطا فرمادیتے ہیں۔ حضرت ام الدرداءؓکہتی ہیں مجھ سے میرے شوہر حضرت ابوالدرداءؓنے بیان کیا، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب کوئی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں : تیرے لیے بھی اسی جیسا ہو ۔(ابوداود) ’ابن ماجہ‘ میں ہے؛ صفوان بن عبداللہ -جن کے نکاح میں حضرت ابوالدرداءؓکی صاحب زادی تھیں وہ-ان کے پاس گئے، وہاں امِ درداءؓ(اپنی ساس) کو پایا اور ابوالدرداءؓکو نہیں پایا۔ ام درداءؓنے ان سے کہا: تم اس سال حج کو جانا چاہتے ہو؟ صفوان نے کہا: جی ہاں! ام درداءؓ نے کہا: پھر ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا، اس لیے کہ آں حضرت ﷺ فرماتے تھے: آدمی کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے غیبت میں قبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اس کی دعا کے وقت آمین کہتا ہے، جب وہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے وہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے: تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ صفوان نے کہا: پھر میں بازار کی طرف گیا، وہاں ابوالدرداءؓملے، انھوں نے بھی حضرت نبی کریم ﷺسے ایسی ہی حدیث بیان کی۔(ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کے گھروں میں چین وسکون نصیب فرمائے اور ہماری بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں سب کو ہمیشہ خوش اور آباد رکھے۔ آمین