شرور و فتن سے حفاظت کے لیے دعائے انس ؄

مولانا ندیم احمد انصاری

یہ فتنوں اور حادثات کا دور ہے۔ ہر آن دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کیا ہو جائے۔ مومن کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کائنات میں ایک پتّہ بھی نہیں ہِل سکتا، اس لیے جب وہ پریشان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کے لیے مخصوص الفاظ کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن سب سے بہتر الفاظ وہ ہیں جو قرآن مجید یا احادیثِ شریفہ میں وارد ہوئے ہیں۔ قرآن و احادیث میں تعوذات اور تحفظات سے متعلق متعدد دعائیں سکھلائی گئی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک مشہور دعا وہ ہے جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے،اسے ’دعاے انس‘ کہتے ہیں۔اسے صبح و شام پڑھنے سے شرور و فتن سے حفظ و امان نصیب ہوتی ہے۔اس دُعا کو علامہ سیوطیؒ نے ’جمع الجوامع‘ میں نقل فرمایا ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس کی شرح فارسی زبان میں تحریر فرمائی اور اس کا نام ’استیناس انوار القبس فی شرح دعاء انس‘ تجویز فرمایا ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل)

حضرت انس رضی اللہ عنہ

اس دعاکے متعلق شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیںکہ یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دُعا ہے جو آں حضرت ﷺکے خادمِ خاص تھے۔ دس سال آں حضرت ﷺ کی خدمت میں رہے اور آں حضرت ﷺ نے ان کی والدہ کی استدعا پر ان کو خیرِ دُنیا و آخرت کی دُعا سے مشرف و مخصوص فرمایا تھا، اور حق سبحانہ وتعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کی دُعا کی برکت سے ان کی عمر و مال اور اولاد میں عظیم برکت عطا فرمائی۔ چناں چہ ان کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی اور ان کی صلبی اولاد کی تعداد سو کو پہنچی ہے، جن میں تہتّر مرد تھے اور باقی عورتیں۔ان کا باغ سال میں دو بار پھل لاتاتھا۔ یہ دُنیا کی برکات تھیں (جو بہ طفیلِ دُعاے آں حضرت ﷺ ان کو حاصل ہوئیں) باقی آخرت کی برکات کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ایں دُعا انس بن مالک است رضی اللہ عنہ کہ خادم رسول اللہ ﷺ بود و دہ سال خدمت آنحضرت کرد، وآنحضرت اورا با التماس مادرش بدعاء خیر در دُنیا و آخرت مشرف و مخصوص ساختہ و حق سبحانہ وتعالیٰ بدعاء آنحضرت در عمر و مال و اولاد وے برکت عظیم دادہ، و عمرش از صد سال متجاوز شدہ اولاد صلبی اش بصد تن رسیدہ ہفتا دو سہ تن از ذکور و باقی اناث و باغ و بستان وے دریک سال دوبار میوہ مے داد، ایں برکات دُنیا است، برکات آخرت را خود چہ تواں گفت۔(ایضاً)

اصل واقعہ

ابانؒ سے روایت ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک بار حجاج بن یوسف کے پاس تشریف لے گئے۔ حجاج نے آپ کو اپنا مال دکھایا، جس میں چار سو گھوڑے تھے۔ سو گھوڑے دو سال کے بعد تیسرے سال میں داخل تھے۔ سو گھوڑے دوسرے سال میں داخل تھے۔ سو گھوڑے پانچویں سال میں داخل تھے اور سو گھوڑے قارح دانت والے تھے۔ حجاج نے کہا : اے انس ! کیا تم نے اپنے ساتھی کے پاس کبھی اتنا مال دیکھا تھا؟اس خبیث کی مراد رسول اللہ ﷺ سے تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بالکل، اللہ کی قسم ! اس سے بھی اچھا مال دیکھا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا : گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ؛ ایک وہ گھوڑا جو مالک نے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے باندھا ہو۔ اس کے بال، اس کا پیشاب ، اس کا گوشت اور اس کا خون قیامت کے دن، اس کی میزان کے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ دوسرا وہ گھوڑا جس کو کسی نے افزائشِ نسل کے لیے رکھا ہو۔ تیسرا وہ گھوڑا جس کو کسی نے افزائشِ ریاوشہرت اور دکھاوے کے لیے باندھا ہو۔ ایسا شخص جہنم میں جائے گا۔ اے حجاج تیرے تمام گھوڑے اسی تیسری قسم کے ہیں! حجاج غضب ناک ہوگیااور بولا : اللہ کی قسم ! اگر تم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت نہ کی ہوتی اور امیر المؤمنین نے مجھے تیری رعایت کا خط نہ لکھا ہوتا تو تو دیکھتا میں تیرے ساتھ کیا کچھ کرتا! حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہرگز نہیں (اللہ کی قسم) میں تجھ سے ایسے کلمات کی بہ دولت پناہ میں آگیا ہوں کہ اب مجھے کسی بادشاہ کے ظلم کا اور کسی شیطان کی سرکشی کا ذرہ برابر بھی خوف نہیں۔ یہ سن کر حجاج کا غصہ چھٹ گیا اور وہ بولا : اے ابو حمزہ ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجیے! حضرت انس نے فرمایا : اللہ کی قسم ! نہیں ، میں تجھے ان کلمات کا اہل نہیں پاتا۔

دعاے انس

راوی حضرت ابانؒفرماتے ہیں کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے ابو حمزہ ! میں آپ سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : کہو! میں نے عرض کیا : وہ کلمات جو آپ سے حجاج نے پوچھے تھے، وہ بتا دیجیے۔ انھوں نے فرمایا : ہاں، اللہ کی قسم ! میں تمھیں ان کا اہل سمجھتا ہوں۔ سنو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، پھر آپ مجھ سے جدا ہونے لگے، اس حال میں کہ آپ مجھ سے راضی تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تم نے میری دس سال خدمت کی ہے اور میں تم کو چھوڑ کر جارہا ہوں اور میں تم سے راضی ہوں۔ لہٰذا تم (کو یہ عطیہ ہے کہ) جب بھی صبح و شام کا وقت ہوا کرے یہ پڑھا کرو :بِسْمِ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ، لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ، بِسْمِ اللہِ عَلٰی دِيْنِىْ وَنَفْسِيْ ، بِسْمِ اللہِ عَلٰی أَهْلِيْ وَمَالِيْ ، بِسْمِ اللہِ عَلٰی كُلِّ شَیْئٖ أَعْطَانِيْهِ رَبِّيْ ، بِسْمِ اللہِ خَيْرِ الْاَسْمَاءِ ، بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْاَرْضِ وَالسَّمَاءِ ، بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ دَاءٌ ، بِسْمِ اللہِ افْتَتَحْتُ وَعَلَی اللہِ تَوَکَّلْتُ ، لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ، لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ، لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ، وَاللّٰهُ أَكْبَرْ ، اَللہُ أَكْبَرْ ، اَللہُ أَكْبَرْ ، اَللہُ أَكْبَرْ ، لَا إِلٰهَ اِلَّا اللہُ الْحَلِيْمُ الْكَرِيْمُ، لَا إِلٰهَ اِلَّا اللہُ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمِ ، تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرّبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ، وَرَبِّ الاَرْضِيْنَ ، وَمَا بَيْنَهُمَا ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ، عَزَّ جَارُکَ ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ ، وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ ، اِجْعَلْنِيْ فِيْ جِوَ ارِکَ مِنْ شَرِّ کُلِ ذِیّ شَرِّ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ، اِنَّ وَلِيَّي اللہَ الَّذِیْ نَزَلَ الْکِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّی الصَّالِحِيْنَ ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ، لَا إِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَکَّلْتُ، وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ.

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نہیں ہے قوت مگر اللہ کی امداد سے۔ اللہ کے نام کی برکت میرے دین اور جان پر۔ اللہ کے نام کی برکت میرے گھر والوں پر اور میرے مال پر۔ اللہ کے نام کی برکت ہر اس چیز پر جو میرے رب نے مجھے عطا کی ہے۔ اللہ کے نام سے جو سب ناموں سے بہتر ہے۔اللہ کے نام سے جو زمین وآسمان کارب ہے۔ اللہ کے نام سے جس کے نام کے ساتھ کوئی بیماری نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ کے نام کے ساتھ میں نے شروع کیا اور اللہ میں نے بھروسہ کیا۔ نہیں ہے قوت مگر اللہ کی امداد سے۔ نہیں ہے قوت مگر اللہ کی امداد سے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ حلیم وکریم ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ عالی شان و بزرگ ہے۔برکت والا ہے۔ اللہ جو ساتوں آسمانوں کا رب ہے اور عرشِ عظیم کا مالک ہے اور تمام زمین اورز مین وآسمان کے درمیان کی چیزوں کا رب ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو ساری کائنات کا پالنے والا ہے۔تیری پناہ لینے والاغالب ہوا، اور تیری تعریف بڑی ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ مجھے اپنی پناہ میں لے لے، ہر شریر کے شر سےاور شیطان مردود کے شر سے۔ میرا محافظ اللہ ہے، جس نے کتاب نازل کی اور وہ نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر بھی اگر ىہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دیجیےکہ میرے لیے اللہ کافی ہے ۔اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔عن أبان عن أنس، أنه دخل على الحجاج ابن يوسف، فعرض عليه أربعمائة فرس مائة جذع، ومائة ثني ومائة رباع، ومائة قارح، ثم قال: يا أنس هل رأيت عند صاحبك مثل هذا؟ يعني النبي ﷺ، فقال أنس: قد والله رأيت عنده خيرا من هذا، سمعت رسول الله ﷺ يقول: الخيل ثلاثة: رجل ارتبط فرسا في سبيل الله فروثها وبولها ولحمها ودمها في ميزان صاحبها يوم القيامة ورجل ارتبط فرسا يريد بطنها، ورجل ارتبط فرسا رياء وسمعة، فهو في النار، وهي خيلك يا حجاج، فغضب الحجاج وقال: أما والله لولا خدمتك رسول الله ﷺ، وكتاب أمير المؤمنين إلي فيك لفعلت بك وفعلت، قال: كلا، لقد احترزت منك بكلمات لا أخاف من سلطان سطوته، ولا من شيطان عتوه، فسري عن الحجاج، فقال: علمناهن يا أبا حمزة، فقال: لا والله إني لا أراك لهن أهلا. فلما كان مرضه الذي مات فيه دخل عليه أبان، فقال: يا أبا حمزة أريد أن أسألك، قال: قل ما تشاء، قال: الكلمات التي طلبهن منك الحجاج؟ فقال: إي والله إني أراك لهن أهلا، خدمت رسول الله ﷺ عشر سنين، ففارقني وهو عني راض، وأنت خدمتني عشر سنين وأنا أفارقك وأنا عنك راض، إذا أصبحت وإذا أمسيت فقل: بسم الله، الخ. (کنزالعمال)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here