صدقۂ فطر واجب ہونے وادا کرنے کا وقت اور اس کی مقدار
ندیم احمد انصاری
واجب ہونے کا وقت
عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد صدقٔہ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی طلوعِ صبحِ صادق سے پہلے مر گیایا مال دار غریب ہوگیا تو اس پر صدقٔہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ طلوعِ صبحِ صادق سے پہلے کوئی شخص مسلمان ہوا یا فقیر مالدار ہوا یا بچہ پیدا ہوا تو صدقۂ فطر واجب ہوگا اور اگر کوئی طلوعِ صبحِ صادق کے بعد غریب ہوگیا تو اس کے ذمّے سے صدقٔہ فطر ساقط نہیں ہوگا،اور طلوعِ صبحِ صادق کے بعد کوئی بچہ پیدا ہوا یا کوئی مسلمان ہوا تو ان پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ ووقت وجوبہا :من حین یطلع الفجر الثانی من یوم الفطر ، حتی اذج مات قبل ذلک …أو أبق العبد أو کان معسراً ،فلا وجوب، وکذا لو ولد بعدہ أو اشتری أو دخل فی ملکہ ، ومن ولد أو أسلم قبلہ وجب …وکذا لو صار غنیاً قبل طلوع الفجر ، وبعدہ لا۔ (التاتارخانیۃ )
رمضان میں صدقۂ فطر
صدقۂ فطر کی دو حیثیتیں ہیں؛ ایک روزے دار کی کوتاہیوں کا کفارہ اور دوسرے غریبوں کی عیدی اور امداد۔ اصلاً صدقۂ فطر واجب تو عید الفطر پر ہی ہوگا لیکن اگر عید سے پہلے یعنی رمضان ہی میں اس کو ادا کر دیا جائے تو فقہاء کی صراحت کے مطابق ادا ہو جائے گا اور ایسا کرتے ہوئے اگر دل میں غریبوں کے لیے نرم گوشا پایا گیا تو اس کا ثواب بھی مستقل ہوگا، ان شاء اللہ ۔حضرت نبی کریمﷺ نے صدقۂ فطر کو ضروری قرار دیا، جو کہ روزے دار کے لیے لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ اور مسکینوں کے لیے کھانے کا انتظام ہے، جو شخص عید کی نماز سے پہلے اسے ادا کر دے، اس کے حق میں یہ مقبول زکوٰۃ ہوگی اور جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے، اس کے حق میں یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں ہمارے زمانے میںلوگ یعنی صحابۂ کرامؓ صدقۂ فطر ایک یا دو دنوں پہلے ہی ادا کر دیا کرتے تھے۔(ابوداؤد)فی التاتار خانیہ: والمختار إذا دخل شہر رمضان یجوز، وقبلہ لا یجوز، وفی الظہیریۃ: وعلیہ الفتویٰ۔ (تاتارخانیۃ،زکریا)
رمضان سے قبل صدقۂ فطر
صدقۂ فطر کا سبب وجوبِ رأس ہے، جو رمضان سے قبل بھی موجود ہے۔ اس لیے علی الراجح صدقۂ فطر رمضان سے قبل دینا بھی صحیح ہے، بلکہ کئی سالوں کا پیشگی بھی دے سکتے ہیں۔(احسن الفتاویٰ)
عید کے دن صدقۂ فطر
اگر رمضان میں ادا نہ کیا تو بہتر یہ ہے کہ عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد عید کی نماز پڑھنے سے پہلے صدقٔہ فطر ادا کرے۔ اگر کسی پر صدقٔہ فطر واجب تھا، لیکن کسی وجہ سے ادا نہیں کرسکا، یہاں تک کہ عیدالفطر کا دن بھی گذر گیا تو اس سے صدقۂ فطر ساقط نہیں ہوگا بلکہ موت سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوگا۔والمستحب للناس أن یخرجوا الفطرۃ بعد طلوع طلوع الفجر یوم الفطر قبل الخروج الی المصلی …وأما وقت أدائہا فجمیع العمر عند عامۃ مشائخنا ؒ۔( ہندیہ، خلاصۃ الفتاویٰ،حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی)
شرعی مقدار
صدقٔہ فطر کی مقدار کم سے کم ایک صاع جو یا نصف صاع گیہوں ہے، نصف صاع کی مقدار موجودہ وزن کے اعتبار سے ایک کلو ۵۷۴؍ گرام سے ۶۴۰؍ملی گرام ہوتی ہے، اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔ (ایضاح المسائل)فی الہندیۃ :وہی نصف صاع من بر أو صاع من شعیر الخ۔ (ہندیہ)
صدقۂ فطر کے مصارف
صدقٔہ فطر ان ہی لوگوں کو دینا جائز ہے جن کو زکوٰۃ دینا درست ہے، جن کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، انھیں صدقٔہ فطر دینا بھی درست نہیں، بلکہ دے دینے پر ادا ہی نہیں ہوگا۔