ندیم احمد انصاری
بعض احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک ساتھ دس صحابۂ کرام کو جنتی ہونے کی خوش خبری ایک ہی مجلس میں دی۔ انھیں کو – عشرۂ مبشرہ- کہا جاتا ہے۔یہ قرآن و حدیث کی کوئی اصطلاح نہیں البتہ حدیث سے ہی مستفاد ہے۔ عام مسلمان جب یہ اصطلاح سنتے ہیں، تو اُنھیں اس کا مطلب سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے، اسی کے پیشِ نظر یہ تحریر سپردِ قلم کی گئی۔
واضح رہے کہ اس قسم کی حدیثوں میں عموماً یہ الفاظ ملتے ہیں-عشرۃ فی الجنۃ- دس حضرات جنت میں ہوں گے، جس کے بعد ان کے نام درج ہیں۔ ۔۔اس قسم کے تصورات کی اصل، مراتبِ مذہبی کے وہ رجحانات ہیں جو ملتِ اسلامی میں نمایاں تھے اور قدیم ترین عقائد میں بھی موجود ہیں۔ دینی خدمات انجام دینے، خیر میں سبقت لے جانے، راہِ حق میں آزمائش کے کٹھن مراحل ثابت قدمی سے طے کرنے کی حوصلہ افزانی فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پر مختلف اصحاب کو مغفرت اور جنت کی بشارت سے نوازا، عشرۂ مبشرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں بتایا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اپنے سے پہلے جنت میں جاتے ہوئے محسوس فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آخرت (جنت) میں اپنے ساتھ بتایا۔ اصحابِ بدر کو تمام اگلے پچھلے گناہوں کی بخشش کی بشارت دی۔ یہ سب فضیلتیں اور بشارتیں دین میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے اور نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو دی جاتی تھیں۔ (اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ)
حدیث شریف
ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے چند لوگوں کو یہ حدیث سنائی کہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دس آدمی جنتی ہیں۔ ابوبکر ، عمر ، علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ ، عبدالرحمن ، ابوعبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ان نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہوگئے۔ لوگوں نے کہا: اے ا بواعور! ہم تمھیںاللہ کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ دسویں شخص کے متعلق بھی بتائیےکہ وہ کون ہے؟وہ فرمانے لگے تم نے مجھے اللہ کی قسم دے دی، تو سنو! ابواعور بھی جنتی ہے۔
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ان کا نام سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رضی اللہ عنہ)ہےاور میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔
أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَهُ فِي نَفَرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ، وَ عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: فَعَدَّ هَؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَكَتَ عَنِ الْعَاشِرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: نَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا أَبَا الْأَعْوَرِ مَنِ الْعَاشِرُ ؟ قَالَ: نَشَدْتُمُونِي بِاللَّهِ أَبُو الْأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو الْأَعْوَرِ هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ: هُوَ أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ. (ترمذی)
اہل السنہ و الجماعہ کا عقیدہ
ظاہر ہے کہ حضور ﷺکا یہ اعلان وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع اور اس کے حکم سے تھا۔ جمہور علماے اہلِ سنت نے حضور کے اس ارشاد سے یہ سمجھا ہے کہ یہ دس حضرات باقی اصحاب کرام اور پوری امت میں افضل ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات کے جنتی ہونے کی حضور ﷺنے مختلف مواقع پر اطلاع دی ہے ، لیکن ان دس حضرات کو دوسرے تمام حضرات کے مقابلے میں امتیاز اور فضیلت حاصل ہے ۔(معارف الحدیث) یہ تمام صحابہ ث وہ ہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بڑی آزمائشیں اور ابتلائیں اٹھائی ہیں۔ اس بشارت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دوسرے رفقا جنت سے محروم ہوں گے ،صحابہ تمام کے تمام رسول اللہ ﷺ کے جان نثاروں اور اسلام کے خادموں اور داعیوں میں تھے ، دوسری حدیثوں میں پوری جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں عموماً اور بعض صحابہ کے بارے میں خصوصیت سے جنتی ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اس لیے عشرۂ مبشرہ کے متعلق پیشین گوئی سے دوسروں کے درجۂ و مقام کی نفی نہیں ہوتی ۔(کتاب الفتاویٰ)البتہ ان کا خصوصی مقام ظاہر ہوتا ہے۔
یہ دس حضرات تمام امت میں سب سے بہتر اور افضل ہیں، قریش کے سردار ہیں اور آں حضرت ﷺ کے قرابت دار اور رشتے دار ہیں۔ دینِ اسلام کے سابقین اولین میں سے ہیں۔ ان کی خاندانی نجابت و وجاہت اور ان کے ذاتی فضائل اور خصائل اور محاسن اور کمالات اسلام کی تقویت کا باعث بنے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد دل و جان سے اسلام کے معین اور مدد گار رہے اور ہر غزوے اور ہر معرکے میں حضور رسالت مآب کے ہم رکاب رہے۔ ان دس حضرات کے وجود سے اسلام کو جو قوت پہنچی، وہ کسی اور سے نہیں پہنچی۔(عقائدِ اسلام)
٭٭٭٭