عُمرہ :مکمّل اور آسان طریقہ

میقات سے احرام باندھنا

mجو شخص عمرہ کرنے کا ارادہ کرے اگر وہ آفاقی ہو تو جب میقات پرپہنچ جائے یا اس سے قریب ہو جائے تو تیار ہو کر عمرے کا احرام باندھ لے، اگر میقاتی ہو یعنی وہ میقات یا اس کے آس پاس رہتا ہو یاوہاں قیام پذیر ہو یا میقات اور حرم کے درمیان علاقے میں رہتا ہو، وہ جہاں سے عمرے کے لیے روانہ ہو گا وہیںسے احرام باندھ لے گا۔اگر مکّی ہو یا حرم کا رہنے والا ہو یا وہاں مقیم ہو یا مکّے میں قیام پذیر ہو یا مکّے کے پاس حدودِ حرم میں رہتا ہو، وہ حرم سے نکل کر قریب ترین حلّ کی طرف جائےگا اور جب حرم سے نکل کر حلّ میں چند قدم بھی چلا جائے گا تو وہاں سے عمرے کا احرام باندھے گا۔مَنْ أَرَادَ الْعُمْرَةَ فَإِنَّهُ يَسْتَعِدُّ لِلإحْرَامِ بِالْعُمْرَةِ مَتَى بَلَغَ الْمِيقَاتَ أَوِ اقْتَرَبَ مِنْهُ إِنْ كَانَ آفَاقِيًّا، أَوْ يُحْرِمُ مِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ أَيْ: مِنْ حَيْثُ يَشْرَعُ فِي التَّوَجُّهِ لِلْعُمْرَةِ إِنْ كَانَ مِيقَاتِيًّا، أَيْ يَسْكُنُ أَوْ يَنْزِلُ فِي الْمَوَاقِيتِ أَوْ مَا يُحَاذِيهَا، أَوْ فِي الْمِنْطَقَةِ الَّتِي بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْحَرَمِ. أَمَّا إِنْ كَانَ مَكِّيًّا أَوْ حَرَمِيًّا أَوْ مُقِيمًا أَوْ نَازِلاً فِي مَكَّةَ أَوْ فِي مِنْطَقَةِ الْحَرَمِ حَوْلَ مَكَّةَ فَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنَ الْحَرَمِ إِلَى أَقْرَبِ مَنَاطِقِ الْحِلِّ إِلَيْهِ، فَيُحْرِمُ بِالْعُمْرَةِ مَتَى جَاوَزَ الْحَرَمَ إِلَى الْحِلِّ وَلَوْ بِخُطْوَةٍ.

احرام کی تیاری اور تلبیہ

mاحرام کی تیاری یہ ہے کہ جو کام اس کے لیے ہیںان کو کرے یعنی غسل کرنا، بدن کی صفائی ستھرائی کرنا ، بدن میں خوش بو لگانا وغیرہ، پھر احرام کی سنت کی نیت سے دو رکعت نماز ادا کرے۔ فرض نماز بھی ان دورکعتوں کے قایم مقام ہو جائےگی۔

m نماز کے بعد عمرے کی نیت کرے:أَللّٰهُمَّ إِنِّي أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَا لِي، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي، إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ. اے اللہ میں عمرے کا ارادہ کرتا ہوں ، آپ اسے میرے لیے آسان بنادیجیے اور اسے میری طرف سے قبول فرمالیجیے، بےشک آپ سننے اور جاننے والے ہیں۔وَالاِسْتِعْدَادُ لِلإْحْرَامِ أَنْ يَفْعَلَ مَا يُسَنُّ لَهُ، وَهُوَ: الاِغْتِسَالُ وَالتَّنَظُّفُ وَتَطْيِيبُ الْبَدَنِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ سُنَّةَ الإْحْرَامِ، وَتُجْزِئُ عَنْهُمَا صَلاَةُ الْمَكْتُوبَةِ، ثُمَّ يَنْوِي بَعْدَهُمَا الْعُمْرَةَ، بِنَحْوِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَا لِي وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.

mپھر تلبیہ پڑھے:لَبَّيْكَ، أَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَآشَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَآ شَرِيكَ لَكَ. میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ کا کوئی شریک نہیں! میں حاضر ہوں۔ بے شک حمد اور نعمت آپ ہی کے لیے ہے اور ملک بھی، آپ کا کوئی شریک نہیں۔

mایسا کرتے ہی وہ محرِم ہو جائےگا یعنی عمرے میں داخل ہو جائے گا اور احرام کی ممنوعات اس کے لیے حرام ہو جائیںگی۔وہ مسلسل تلبیہ پڑھتارہے، یہاں تک کہ مکّے میں داخل ہو کر طواف شروع کرے۔وَالاِسْتِعْدَادُ لِلإْحْرَامِ أَنْ يَفْعَلَ مَا يُسَنُّ لَهُ، وَهُوَ: الاِغْتِسَالُ وَالتَّنَظُّفُ وَتَطْيِيبُ الْبَدَنِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ سُنَّةَ الإْحْرَامِ، وَتُجْزِئُ عَنْهُمَا صَلاَةُ الْمَكْتُوبَةِ، ثُمَّ يَنْوِي بَعْدَهُمَا الْعُمْرَةَ، بِنَحْوِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَا لِي وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، ثُمَّ يُلَبِّي قَائِلاً: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» وَبِهَذَا يُصْبِحُ مُحْرِمًا أَيْ: دَاخِلاً فِي الْعُمْرَةِ، وَتَحْرُمُ عَلَيْهِ مَحْظُورَاتُ الإْحْرَامِ، وَيَسْتَمِرُّ يُلَبِّي حَتَّى يَدْخُلَ مَكَّةَ وَيَشْرَعَ فِي الطَّوَافِ.

بیت اللہ میں داخلہ

m جب عمرہ کرنے والا مکّے میں داخل ہو تو فوراً مسجدِ حرام جائےاور انتہائی خشوع و احترام کے ساتھ کعبۂ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو اور حجرِ اسود سے باوضو طواف شروع کرے اور طواف میں سات شوط پورے کرے، اس طرح کہ طواف کی نیت کر کے حجرِ اسود کا استلام کرے، اگر بھیڑ یا کسی کی ایذا رسانی کا اندیشہ نہ ہو تو اس کا بوسہ لے اور تکبیر کہے، ورنہ اس کی طرف اشارہ کر کے تکبیر کہے اور تلبیہ کہنا بند کر دے، اس کے بعد جب جب حجرِ اسود سے گزرے، اسی طرح اس کا استلام کرے۔فَإِذَا دَخَلَ الْمُعْتَمِرُ مَكَّةَ بَادَرَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَتَوَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ الْمُعَظَّمَةِ بِغَايَةِ الْخُشُوعِ وَالاِحْتِرَامِ، وَيَبْدَأُ بِالطَّوَافِ مِنَ الْحَجَرِ الْأسْوَدِ، فَيَطُوفُ سَبْعَةَ أَشْوَاطٍ طَوَافَ رُكْنِ الْعُمْرَةِ، فَيَنْوِيهِ وَيَسْتَلِمُ الْحَجَرَ فِي ابْتِدَاءِ الطَّوَافِ، وَيُقَبِّلُهُ إِنْ لَمْ يَخْشَ الزِّحَامَ أَوْ إِيذَاءَ أَحَدٍ وَيُكَبِّرُ وَإِلاَّ أَشَارَ إِلَيْهِ وَكَبَّرَ، وَيَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ بِاسْتِلاَمِ الْحَجَرِ فِي ابْتِدَاءِ الطَّوَافِ أَوِ الْإشَارَةِ إِلَيْهِ، وَكُلَّمَا مَرَّ بِالْحَجَرِ اسْتَلَمَهُ وَقَبَّلَهُ أَوْ أَشَارَ إِلَيْهِ.

استقبال و استلام

mطواف شروع کرتے وقت حجرِ اسود کے مقابل کھڑے ہو کر سینے اور چہرے کو حجرِاسود کی طرف کر کے دونوں ہاتھوں کو کانوں یا مونڈھوں تک اٹھا کر تکبیر کہہ کر طواف شروع کرنا مسنون ہے، اسے ’استقبال‘ کہتے ہیں، اور دونوں ہاتھوں کو حجرِ اسود پر رکھ کر اسے بوسہ دینا یا حجرِاسود پر ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لینا یا دور سے اس کی نقل کرنا ہر طواف کی ابتدا و انتہا میں مسنون ہے، اسے ’استلام‘ کہتے ہیں۔ و یستلمہ، وصفتہ الإستلام أن یضع کفیه علی الحجر ویقبله … و الا مس الحجر بیدہ، وقبل یدہ … فإن لم یستطع شیأ من ذالک، یستقبلہ و یرفع یدیہ مستقبلا بباطنھما ایاہ، ویکبر و یھلل و یحمد ویصلی علی النبی ﷺ … و کلما مر بالحجر یستمله…ویختم الطواف بالإستلام… وإن افتتح الطواف بإستلام الحجر و ختم به و ترک الإستلام فیما بین ذالک اجزأہ، و اذا ترک رأسا فقد اساء، کذا فی شرح الطحاوی و یستلم الرکن الیمانی، و ھو حسن فی ظاھر الروایہ.

mطواف شروع کرتے وقت حجرِ اسود کے سامنے اس طرح کھڑا ہو کہ اس کا داہنا کندھا حجرِ اسود کے بائیں کنارے کے مقابل ہو، ورنہ مطلقاً حجرِاسود کی طرف رخ کر کے طواف کی نیت کر لی، تب بھی ہمارے نزدیک کافی ہے۔ ابتداے طواف میں حجرِاسود کے سامنے کھڑا ہونا ہمارے نزدیک سنت ہے، واجب نہیں ہے، اور اس کے خلاف مکروہ ہے۔

طوافِ عمرہ

m عمرہ کرنے والے مَرد کے لیے طوافِ عمرہ کے تمام چکّروں میں اضطباع مسنون ہے یعنی چادر کے درمیانی حصے کو اپنے دائیں بغل کے نیچے کر لے اور اس کے دونوں کناروں کو بائیں مونڈھے پرڈال لے، اس طرح کہ دایاں مونڈھا کھلا رہے۔ مرد کے لیے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا بھی مسنون ہے، بقیہ میں عادت کے مطابق چلے۔ عمرہ کرنے والے کو پورے طواف میں زیادہ سے زیادہ ذکر و دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔وَيُسَنُّ لَهُ أَنْ يَضْطَبِعَ فِي أَشْوَاطِ طَوَافِهِ هَذَا كُلِّهَا، وَالاِضْطِبَاعُ أَنْ يَجْعَلَ وَسَطَ الرِّدَاءِ تَحْتَ إِبْطِهِ الْيُمْنَى، وَيَرُدَّ طَرَفَيْهِ عَلَى كَتِفِهِ الْيُسْرَى وَيُبْقِي كَتِفَهُ الْيُمْنَى مَكْشُوفَةً، كَمَا يُسَنُّ لِلرَّجُلِ الرَّمَلُ فِي الْأشْوَاطِ الثَّلاَثَةِ الْأُولَى، وَيَمْشِي فِي الْبَاقِي، وَلْيُكْثِرِ الْمُعْتَمِرُ مِنَ الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي طَوَافِهِ كُلِّهِ.

دوگانہ طواف

mطواف سے فارغ ہو کر مقامِ ابراہیم کے قریب دورکعتیں ادا کرے ، پھر لوٹ کر حجرِ اسود کے پاس جائے اور اس کا استلام کرے، اسی طرح کہ اگر ممکن ہو تو بوسہ دے اور تکبیر کہے یا اشارہ کرے اور تکبیر کہے، پھر صفا پر جائے اور اس آیت کی تلاوت کرے :﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَن حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ بےشک صفا و مردہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں، جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر ( ذرا بھی ) گناہ نہیں کہ ان دونوں کے در میان آمدورفت کرے۔ ثُمَّ إِذَا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْحَجَرِ الْأسْوَدِ فَيَسْتَلِمَهُ وَيُقَبِّلُهُ إِنْ تَيَسَّرَ وَيُكَبِّرُ أَوْ يُشِيرُ إِلَيْهِ وَيُكَبِّرُ، وَيَذْهَبُ إِلَى الصَّفَا، وَيَقْرَأُ الآْيَةَ: ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾.

صفا و مروہ کے درمیان سعی اور حلق یا قصر

mسعی کی ابتدا صفا سے کرے، صفا پر اتنا چڑھے کہ کعبۂ معظمہ کو دیکھ لے، پھر اس کی طرف متوجہ ہو کر کھڑا ہو، تہلیل و تکبیر پڑھے اور دعا کرے، پھر اتر کر مروہ کی طرف چلے۔ مرد میلین اخضرین کے درمیان تیز قدم چلے، پھر اطمینان سے چل کر مروہ پر پہنچے ۔ وہاں بھی کھڑے ہو کر ذکر و دعا کرے جیسے صفا پر کیا تھا، پھر اتر جائے۔جس طرح پہلے چکّر میں کیا ہے اسی طرح سات چکر پورے کرے، جو صفا سے شروع ہو کر مروہ پر ختم ہوگا۔ سعی میں زیادہ سے زیادہ ذکر و دعا کرے۔ سعی سے فارغ ہو کر اپنے سر کا حلق یا قصر کروا لے، اس طرح احرام سے مکمل حلال ہو جائے،اب جب تک چاہے مکّے میں حلال حالت میں قیام کر سکتا ہے۔وَيَبْدَأُ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الصَّفَا، فَيَرْقَى عَلَى الصَّفَا حَتَّى يَرَى الْكَعْبَةَ الْمُعَظَّمَةَ، فَيَقِفُ مُتَوَجِّهًا إِلَيْهَا وَيُهَلِّلُ وَيُكَبِّرُ وَيَدْعُو ثُمَّ يَنْزِلُ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَرْوَةِ وَيُسْرِعُ الرَّجُلُ بَيْنَ الْمِيلَيْنِ الْأخْضَرَيْنِ، ثُمَّ يَمْشِي الْمُعْتَمِرُ حَتَّى يَبْلُغَ الْمَرْوَةَ، فَيَقِفَ عَلَيْهَا يَذْكُرُ وَيَدْعُو بِمِثْلِ مَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، ثُمَّ يَنْزِلَ فَيَفْعَلَ كَمَا فِي الشَّوْطِ الْأوَّلِ حَتَّى يُتِمَّ سَبْعَةَ أَشْوَاطٍ تَنْتَهِي عَلَى الْمَرْوَةِ، وَلْيُكْثِرْ مِنَ الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي سَعْيِهِ، ثُمَّ إِذَا فَرَغَ الْمُعْتَمِرُ مِنْ سَعْيِهِ حَلَقَ رَأْسَهُ أَوْ قَصَّرَهُ وَتَحَلَّلَ بِذَلِكَ مِنْ إِحْرَامِهِ تَحَلُّلاً كَامِلاً، وَيَمْكُثُ بِمَكَّةَ حَلاَلاً مَا بَدَا لَهُ.

طوافِ وداع

mجب مکہ مکرمہ سے واپس جانے کا ارادہ ہو تو طوافِ وداع کرے، یہ طواف شافعیہ کے نزدیک واجب اور مالکیہ کےنزدیک سنت ہے، حنابلہ کے نزدیک طوافِ وداع واجب ہے، البتہ اگر مکی ہو یا اس کا گھر حرم میں ہو تو اس پر طوافِ وداع واجب نہیں ہوگا۔حنفیہ کے نزدیک عمرہ کرنے والے کے لیے طوافِ وداع نہ واجب ہے نہ سنت،البتہ اختلاف سے بچنے کے لیے مستحب ہے، ان کے نزد یک طوافِ وداع حج کے مناسک میں سے ہے(تفصیل سابق میں گزر چکی)۔ طوافِ وداع اس لیے ہے کہ اس کا آخری عمل بیت اللہ کے ساتھ طواف ہو۔ ثُمَّ عَلَيْهِ طَوَافُ الْوَدَاعِ إِذَا أَرَادَ السَّفَرَ مِنْ مَكَّةَ – وَلَوْ كَانَ مَكِّيًّا – وُجُوبًا عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ وَسُنَّةً عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ طَوَافُ الْوَدَاعِ عِنْدَ الْحَنَابِلَةِ إِلاَّ إِنْ كَانَ مَكِّيًّا أَوْ مَنْزِلُهُ فِي الْحَرَمِ، فَلاَ يَجِبُ عَلَيْهِ الْوَدَاعُ، أَمَّا الْحَنَفِيَّةُ فَلاَ يَجِبُ عِنْدَهُمْ طَوَافُ الْوَدَاعِ عَلَى الْمُعْتَمِرِ لَكِنْ يُسْتَحَبُّ خُرُوجًا مِنَ الْخِلاَفِ؛ لِأنَّ طَوَافَ الْوَدَاعِ عِنْدَهُمْ مِنْ مَنَاسِكِ الْحَجِّ، شُرِعَ لِيَكُونَ آخِرَ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ.

[تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: ’عمرہ و زیارت‘]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here