قنوتِ نازلہ:کیا، کیوں، کیسے؟

مولانا ندیم احمد انصاری

مسلمان اس وقت جن حالات سے دو چار ہیں، ضروری معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نبوی علاج پر رہنمائی کی جائے۔ان حالات کا اصل علاج گناہوں سے توبہ و تعلقِ مع اللہ ہے۔ لیکن ایسے موقعوں کے لیے قنوتِ نازلہ بھی مسنون و مشروع ہے۔ آقاے دو جہاں، رحمۃ للعالمینﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالم گیر مصیبت نازل ہو، مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوف ناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاؤں اور بربادیوں اور ہلاکت خیز طوفانوں میں مبتلا ہو جائے ، تو ایسی مصیبت کے دفعیے کے لیے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے، اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جاتی، یہ عمل برابر جاری رہتا تھا۔ اس کا جواز عموماً جمہور ائمہ اور خصوصاً حنفیہ کے نزدیک باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے ، بلکہ جب کوئی عام مصیبت پیش آئے تو مصیبت کے زمانے تک قنوتِ نازلہ پڑھنا جائز ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ ضرورت کے وقت اس سنت پر عمل کریں اور قنوتِ نازلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت، ظلم و زیادتی اور فسق و فجور اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز کریں۔ حقوق العباد کی ادایگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں۔ آپس میں محبت و ہم دردی اور اتفاق پیدا کریں۔ لہو و لعب سے پرہیز کریں اور اپنے خالق خداے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں تضرع و زاری کے ساتھ مناجات و دعا کریں۔ غرض یہ کہ ہر قسم کے اوامر و اخلاقِ حسنہ پر عمل کی کوشش کریں اور ہر قسم کی منکرات و برائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ سے امید ہے کہ وہ اپنے بندوں کی اخلاص و تضرع بھری دعائیں قبول اور ان کو اس گردابِ بلاسے نجات و خلاصی عطا فرمائے گا۔(عمدۃ الفقہ،بترمیم)

چند احادیث

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :اللہ کے نبیﷺنے ایک مہینے تک نمازِ فجر میں قنوت پڑھی، جس میں آپ نے عرب کے بعض قبیلوں؛ رِعْل، ذکوان، عُصَیَّہ اور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی۔(بخاری)حضرت انس بن مالکؓکی روایت میں ہے :رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوتِ نازلہ پڑھی اور اس کے بعد چھوڑ دی۔(ابوداود) حضرت انس بن مالکؓ سے دریافت کیا گیا:کیا رسول اللہ ﷺنے صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے پڑھی ہے یا رکوع کے بعد ؟ فرمایا: رکوع کے بعد۔ (ابوداود)

تین قنوت

لفظ ’قنوت‘ کے معنی ہیں ’دعا‘، اور قنوت تین ہیں؛(۱) ایک وہ جو وتر میں پڑھا جاتا ہے (۲) دوسرا قنوت نازلہ ہے ، یعنی وہ قنوت جو دشمن کی طرف سے آنے والی اُفتاد کے وقت میں پڑھا جاتا ہے ، یہ قنوت اجتماعی ہے‘ جب مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے کسی آفت کا سامنا ہو تو انھیں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہیے ۔ پھر امامِ اعظم رحمہ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ قنوت صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے قومے میں پڑھا جائے اور دوسرا قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں، اور امام شافعیؒ کے نزدیک پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتے ہیں(۳) تیسرا قنوت‘ قنوتِ راتبہ یعنی ہمیشہ پڑھا جانے والا قنوت‘ اس کے صرف امام مالک اور امام شافعیؒ قائل ہیں۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ اس کو مستحب گر دانتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سنت، باقی دو امام اس قنوت کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ قنوت صرف فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے قومے میں پڑھتے ہیں۔(تحفۃ الالمعی)

قنوت جنگ کے ساتھ خاص نہیں

درست یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ جنگ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آجائے یا فتنے میں مبتلا ہوں تو اسے پڑھا جائز۔(خیر الفتاویٰ)جب طاعون یا ہیضے وغیرہ کی وبا پھیل جائے‘ جس سے لوگ مضطرب اور پریشان ہوں، تو قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے ، تا آں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کر دے ۔(فتاویٰ رحیمیہ،صالح)

مرد، عورت، امام، منفرد سب کیلیے

قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے۔ مرد، عورت، امام، منفرد ہر ایک کو شامل ہے ۔ جماعت کی قید اور مَردوںکی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لیے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں ہے ۔قنت الامام اس کے لیے کامل دلیل نہیں ہے ۔(حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒکابھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعاے قنوت پڑھ سکتی ہیں، مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ)

قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ

عام مصیبت وبلیّات کے وقت بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے ، جس میں نہ قنوتِ وتر کی طرح ہاتھ اٹھائیںنہ تکبیر کہیں۔(جواہر الفقہ)یعنی قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعدسَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر امام قومہ کرے ،اور اسی حالت میں دعاے قنوت پڑھے اور جہاں وہ ٹھہرے‘ تمام مقتدی وہاں آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو ک اللہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتدا میں معمول کے مطابق ادا کریں۔

’عمدۃ الفقہ‘ میں ہے کہ بہ اعتبارِ دلیل کے قوی یہ ہے کہ[قنوتِ نازلہ] رکوع کے بعد پڑھی جائے ، یہی اولیٰ اور مختار ہے ، پس فجر کی دوسری رکعت، مغرب کی تیسری رکعت اور عشا کی چوتھی رکعت میں رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر امام دعائے قنوتِ نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہتے رہیں۔ دعا سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ اگر یہ دعامقتدیوں کو یاد ہو، تو بہتر ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو‘ جیسا کہ اکثر تجربہ اس کا شاہد ہے، تو بہتر یہ ہے کہ امام زور سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔(عمدۃ الفقہ، بترمیم)

دعاے قنوتِ نازلہ مع ترجمہ

دعاے قنوتِ نازلہ مختلف روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، ایک جامع دعا یہ ہے :اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلِلْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْ وَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃَ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔یا اللہ ! ہمیں راہ دکھا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے ہم کو اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت بخشی، اور کارسازی فرما ہماری ان لوگوں میں جن لوگوںکے آپ کارسازہیں، اور ہمیں برکت عطا فرما ان چیزوں میں‘ جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اور بچا ہمیں اس چیز کے شر سے‘ جس کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ فیصلہ کرنے والے آپ ہی ہیں‘ آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ کا دشمن عزت نہیں پا سکتا اور آپ کا دوست ذلیل نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب !آپ برکت والے اور بلند و بالا ہیں۔یا اللہ! مغفرت فرما مومن مَردوں اور عورتوں کی اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کی،اور ان کے حالات کی اصلاح فرما دے، ان کے باہمی تعلقات درست فرما دے، ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دے، ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم فرما، انھیں توفیق دے کہ شکر کریں آپ کی اس نعمت کا‘ جو آپ نے انھیں دی ہے، اور یہ کہ وہ پورا کریں آپ کا وہ عہد‘ جوآپ نے ان سے لیا ہے، ان کو غلبہ عطا فرما‘ان کو اپنے دشمن پر اور ان کے دشمن پر۔ اے معبودِ برحق! آپ کی ذات پاک ہے، آپ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔یا اللہ! مسلم فوجوں کی مدد فرمااور کافروں و مشرکوں پر اپنی لعنت فرما،جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیںاور آپ کے اولیا کو قتل کرتے ہیں۔ یا اللہ! ان کے آپس میں اختلاف ڈال دے، ان کی جماعت کو متفرق کر دے، ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، ان کے قدم اکھاڑ دے، ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے ، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے، اور اُن پر وہ عذاب نازل فرما‘ جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے۔(رسائلِ ابنِ یامین)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here