عاشوراء اور اس سے متعلق بعض روایات

مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈیریکٹر و محقق الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیسوں دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، لیکن اللہ جل شانہ نے اپنے فضل وکرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اور ان میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں۔ اِنھی میں سے ایک ماہِ محرم کا یومِ عاشوراء ہے۔عاشوراء معنی ہیں ’دسواں دن‘۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکات کا خصوصی طور پر حامل ہے۔

مشہور مگر غیر صحیح روایات

ابو شیخ نے اپنی کتاب’الثواب‘ میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ عاشوراء کے دن حضرت نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر اپنی کشتی سے اترے اور اس دن روزہ رکھا اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نیز عاشوراء کے دن ہی اللہ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور حضرت یونس علیہ السلام کے شہر والوں کی بھی اسی دن توبہ قبول کی۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ وروی ابو الشیخ فی الثواب، انہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: ان نوحاً ہبط من السفینۃ علی الجودی یوم عاشوراء فصام نوح، وامر من معہ بصیامہ شکراً للّٰہ، وفی یوم عاشوراء تاب اللّٰہ علی آدم، وعلی اہل مدینۃ یونس، وفیہ فلق البحر لبنی اسرائیل، وفیہ ولد ابراہیم وابن مریم علیہما السلام۔(ما ثبت بالسنۃ)

لیکن شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں میں یہ باتیں مشہور ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشوراء کا دن تھا، جب نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشوراء کا دن تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے گلزار بنایا تو وہ عاشوراء کا دن تھا اور قیامت بھی عاشوراء کے دن قائم ہوگی۔ یہ سب باتیں لوگوں میں مشہور ہیں، لیکن ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔ کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے، جو یہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشوراء کے دن پیش آئے تھے۔ فافہم (اصلاحی خطبات)بلکہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے تو ان روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ (انظر ما ثبت بالسنۃ)

عاشوراء کا روزہ

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :(اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا: ان قریشاً کانت تصوم یوم عاشوراء فی الجاہلیۃ، ثم امر رسول اللّٰہﷺ بصیامہ حتی فرض رمضان، وقال رسول اللّٰہﷺ: من شاء فلیصمہ، ومن شاء افطر۔(بخاری،مسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: حضرت نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ سے تمھاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چناں چہ آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا۔عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: قدم النبی ﷺ المدینۃ، فرأی الیہود تصوم یوم عاشوراء، فقال ما ہذا؟ قالوا: ہذا یوم صالح، ہذا یوم نجی اللّٰہ بنی اسرائیل من عدوہم، فصامہ موسیٰ، قال: فأنا احق بموسیٰ منکم، فصامہ، وامر بصیامہ۔(بخاری، مسلم)

پہلی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت پیش کی گئی مشرکینِ قریش زمانۂ جاہلیت ہی سے اس دن روزہ رکھتے تھے، غالباً یہ کسی نبی اللہ کی باقیات میں سے ہوگا اور رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کو بھی اس کا حکم دیا تھا۔روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عیسائی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں میں اس دن کا روزہ مشروع تھا۔ (تفہیم البخاری)

عاشوراء کے روزہ کی فضیلت اور احکام

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔عن عن ابی قتادۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ، سئل عن صیام یوم عاشوراء، فقال: یکفر السنۃ الماضیۃ۔(مسلم، ابو داؤد)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: جب آں حضرت ﷺ نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے۔ تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لیکن آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وفات پاگئے۔ عن عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: حین صام رسول اللّٰہﷺ یوم عاشوراء وامر بصیامہ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! انہ یوم یعظمہ الیہود والنصاری، فقال: رسول اللّٰہﷺ: فاذا کان العام المقبل انشاء اللّٰہ صمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللّٰہ ﷺ۔(مسلم، ابن ماجہ)

اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔فی الشامیۃ: یعم السنۃ عاشوراء مع التاسع ویستحب ان یصوم یوم عاشوراء بصوم یوم قبلہ او یوم بعدہ، لیکون مخالفاً لأہل الکتاب۔(شامی ،نصب الرایہ)

عاشوراء میں مسلمان کیا کریں؟

شیخ الفقہاء ومحدثین شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیثمی مصری، مفتی مکہ معظمہ نے اپنی تالیف ’صواعق محرقہ‘ میں یومِ عاشوراء کے ضمن میں لکھا ہے: لوگو! اچھی طرح سمجھ لو کہ عاشوراء کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ مصائب سے دوچار ہوئے اور آپ کی شہادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے مراتب ودرجات کی رفعت کا ثبوت ہے۔ اس شہادت کے ذریعے اہلِ بیتِ اطہار کے درجات بلند کرنا بھی اللہ کو منظور تھا۔ اس لیے عاشوراء کے دن جو شخص مصائب کا تذکرہ کرے تو اسے لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے میں مشغول رہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے ثواب کا مستحق ہوسکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے رحم وکرم ہوتا ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ عاشوراء کے دن انا للہ پڑھتے رہے، یا بڑی سے بڑی نیکی روزہ رکھنے کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول نہ ہو۔ قال الشیخ شہاب الدین بن الحجر الہیثمی المصری، مفتی بلد اللہ الحرام، وشیخ الفقہاء والمحدثین فی اوانہ بذلک المقام فی الصواعق المحرقۃ، اعلم ان اصیب بہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فی عاشوراء انما ہو الشہادۃ الدالۃ علی یزید خطرتہ ورفعتہ درجتہ عند ربہ والحاقۃ بدرجات اہل البیب الطاہرین فمن ذکر ذلک الیوم مصابہ لاینبغی ان یشتغل الا بالاسترجاع امتثالاً للامر واحرازاً لما رتبہ اللہ تعالیٰ علیہ بقولہ اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۔ ولا یشتغل ذلک الیوم الا بذلک ونحوہ من عظائم الطاعات کالصوم الخ۔ (ما ثبت بالسنۃ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here