قیلولہ کیا کرو اس لیے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا

مفتی ندیم احمد انصاری

صبح سویرے کام کاج پر لگنا برکت کا باعث ہوتا ہے اور دن اچھا خاصا لمبا ہوتا ہے اور لمبے وقت تک مسلسل سرگرمِ عمل رہنے اور کام کاج کرنے سے انسان کو تعب و تکان کا احساس ہونے لگتا ہے، اسی لیے رات کی کے علاوہ دن میں کچھ دیر آرام کر لینے کو رحمۃ للعالمینﷺ نے مستحسن قرار دیا۔ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنتِ مبارکہ بھی ہے اور صدیوںبعد جدیدسائنس کی تحقیق میں تسلیم شدہ بھی کہ دن میں تھوڑی دیر آرام کر لینا انسان کی ذہنی وجسمانی صحت کے لیے نہایت مفید وفایدے مندہے۔دیگر سنتوں کی طرح اس میں بھی حکمت پوشیدہ ہے اور تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ قیلولہ کرنے سے جسمانی توانائی بہ حال اور ذہنی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور اس کے بعد گویا نیادن شروع ہوجاتاہے۔دراصل نیند سے جوارح کو سکون اور راحت ملتی ہے، اس لیے جب ان میں تکان آجاتی ہے تو اس کی مکافات بلا سکون و راحت کے ممکن نہیں ہوتی، اس طرح حواس کو بیداری کی چوکسی سے نجات مل جاتی ہے اور تعب و تکان دور ہو جاتی ہے۔

قیلولہ کے معنی

سب سے پہلے قیلولہ کا مفہوم ذہن نشین کر لیں کہ ’قیلولہ‘ اور ’قائلہ‘ کے اصل معنی نصف النہار کے ہیں،اسی لیے نصف النہار میں آرام کرنے اور سونے کو بھی ’قیلولہ‘ اور ’قائلہ‘ کہا جاتا ہے۔ [القاموس المحیط]

قیلولہ کا حکم

علماے کرام کے نزدیک قیلولہ کرنا سنت و مستحب ہے، سردی کا موسم ہو یا گرمی کا،اس کے لیے سونا بھی ضروری نہیں، بس کچھ دیر آرام کر لینا کافی ہے۔[فقہ الاسلامی وادلتہ]

رسول اللہ ﷺ کا معمول

حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں۔رسول اللہ ﷺجب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے۔[مشکوٰۃ]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دن میں بہ ذاتِ خود بھی آرام فرمایا کرتے تھے، چناں چہ دن میں تھوڑا بہت آرام کر لینا سنت ہے، کیوں کہ اس کی برکت سے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سحری کھا لینے سے روزے میں آسانی ہوتی ہے۔ [دیکھیے مظاہرِ حق جدید]

قیلولہ کی تاکید

حضرت انسؓکی ایک متکلم فیہ روایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:م قیلولہ کیا کرو، اس لیے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ [مجمع الزوائد]دوپہر میں تھوڑی دیر آرام کرنے یعنی قیلولہ کا ایک اہم فایدہ یہ بھی ہے کہ رات کے آخری پہر یا علی الصبح بیدار ہونا آسان ہو جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔دوپہر کو تھوڑی دیر آرام کر کے قیام اللیل میں اور سحری کھا کر دن میں روزے پر مدد حاصل کرو۔[ابن ماجہ]

سفر میں قیلولہ

ایسا نہیں ہے کہ قیلولہ صرف حضر میں یعنی مقام پر رہ کر ہی کیا جاتا بلکہ انسانوں کی سہولت کی غرض سے سفر کے دوران بھی اگر موقع میسر آئے اور جان و مال کی حفاظت کا انتظام ہوتو بہتر ہے کہ کچھ دیر دوپہر کے وقت میں آرام کر لیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ سفر میں بھی قیلولہ فرما لیا کرتے تھے۔حضرت ابو قتادہؓنے بیان کیا کہ میرے والد صلحِ حدیبیہ کے موقع پر دشمنوں کا پتا لگانے نکلے، پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھ لیا لیکن خود انھوں نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔ اصل میںحضرت نبی کریم ﷺ کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ ’مقامِ غیقہ‘ میں دشمن آپ کی تاک میں ہے، اس لیے حضرت نبی کریم ﷺ نے ابوقتادہ اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کی تلاش میںروانہ کیا۔ میرے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میرے والد نے بیان کیا کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے، میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کردیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا، پھر ہم نے گوشت کھایا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ سے دور نہ ہوجائیں، چناں چہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کردیا، کبھی اپنا گھوڑا تیز کردیتا اور کبھی آہستہ، آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام ’تعہن‘ میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام ’سقیا‘ میں پہنچ کر قلیولہ کریں گے۔الخ[بخاری]اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حسبِ موقع دورانِ سفر بھی قیلولہ فرما لیا کرتے تھے۔

جمعے کے دن قیلولہ

جمعے کی نماز چوں کہ ظہر سے کچھ پہلے ہوتی ہے اور جمعے کے احترام میں مسجد جلد پہنچنا بھی مستقل سنت ہے، اسی لیے صحابۂ کرامؓجمعے کے دن نمازِ جمعہ سے فارغ ہو کر ہی قیلولہ فرماتے تھے، جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:(جمعے کے دن) ہم کھانا اور قیلولہ نمازِ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔ [بخاری]

کسی اور کےیہاں قیلولہ

ایک مسئلہ متعلقین کے یہاں قیلولہ کرنے کا ہے تو واضح رہے کہ جس طرح اپنے گھر میں قیلولہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح اپنے ایسے متعلقین کے یہاں بھی کیا جا سکتا ہے جن کے یہاں آرام کرنے سے انھیں کسی قسم کی کوئی تکلیف ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔حضرت انسؓروایت کرتے ہیں:حضرت ام سلیمؓحضرت نبی کریم ﷺ کے لیے چمڑے کا فرش بچھایا کرتی تھیں، آپ ﷺ ان کے یہاں اس فرش پر قیلولہ فرماتے تھے۔ [بخاری]

مسجد میں قیلولہ

مسجد میں قیلولہ کرنے کو بعض منع کرتے ہیں، جب کہ احادیث میں دونوں باتیں ثابت ہیں؛ مسجد میں قیلولہ کرنا بھی اور نہ کرنا بھی۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓسے روایت ہے:ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد میں سو جایا کرتے تھے اور ہم جوان تھے۔امام ابوعیسیٰ ترمذیؒفرماتے ہیں:حدیث ابن عمرؓحسن صحیح ہے، بعض اہلِ علم نے مسجد میں سونے کی اجازت دی ہے، جب کہ حضرت ابن عباسؓفرماتے ہیں کہ مسجد کو سونے اور قیلولہ کرنے کی جگہ نہ بناؤ، اس لیے بعض اہلِ علم کا حضرت ابن عباسؓکے قول پر عمل ہے۔[ترمذی]

[مضمون نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here