مسجدِ اقصیٰ، بیت المقدس اور فلسطین: قرآن وحدیث کی روشنی میں

(پہلی قسط)

مفتی ندیم احمد انصاری

مسجدِ اقصیٰ، بیت المقدس اور فلسطین مسلمانوں کے لیے بہت خاص ہے۔ حضورﷺ کی اسرا و معراج کے مہتمم بالشان واقعے کے ذیل میں ارشادِ ربانی ہے:سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۝ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔ [سورۃ الاسراء]یہاں مسجد اقصیٰ کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے:الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکاتِ الٰہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ہم نے اسے بابرکت بنایا ہے یا یہ کہا جاتا کہ اس میں برکات ہیں تو مفہوم میں اس قدر وسعت نہ ہوتی جس طرح ان الفاظ میں ہے کہ ہم نے اس کے ماحول کو بابرکت بنایا ہے۔[تفسیر فی ظلال القرآن]

مسجدِ اقصیٰ دنیا کی دوسری مسجد

ابراہیم تیمی اپنے والد حضرت ابوذر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایامسجدِ حرام! میں نے عرض کیا: پھر کون سی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسجدِ اقصی! میں نے عرض کیا: ان کے درمیان میں کتنا فاصلہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چالیس سال کا۔ پھر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو، فضیلت و برتری اسی میں ہے۔ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ “الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ سَنَةً ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ”. [بخاری، کتاب: احادیث الانبیاء، أخرجہ مسلم]

مسجدِ اقصیٰ میں نماز کا ثواب

حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرد کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کے برابر ہے، محلّے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کے برابر ہے، جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کے برابر ہے، مسجدِ اقصٰی میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ”.[ابن ماجہ، کتاب: اقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع]

مسجدِ اقصیٰ کا سفر

حضرت ابوہریرہؓحضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: سامانِ سفر نہ باندھا جائے مگر تین مسجدوں کے لیے: (۱)مسجدِ حرام (۲)مسجدِ رسول (۳)مسجدِ اقصیٰ۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ “لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ، ‏‏‏‏‏‏الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى”.[بخاری، کتاب: فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ، أخرجہ مسلم]

فلسطین اور قدس

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عریش، فرات اور فلسطین میں برکت نازل فرمائی اور فلسطین کو قدس کے ساتھ خاص کیا۔ إن اللہ تعالى بارك ما بين العريش والفرات وفلسطين،وخص فلسطين بالتقديس.[کنزالعمال]

مسلمانوں کا قبلۂ اول

حضرت انسؓفرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے،جب یہ آیت نازل ہوئی: قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ (اے پیغمبر) ہم تمھارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، چناں چہ ہم تمھارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو تمھیں پسند ہے، لو اب اپنا رخ مسجد ِحرام کی سمت کرلو، اور ( آیند ہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) اسی کی طرف رکھا کرو۔[سورۃ البقرۃ]

بنو سلمہ میں سے ایک آدمی ادھر سے گزر رہا تھا-وہ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی-اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے، یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلے کی طرف پھرگئے۔ عَنْ أَنَسٍ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، كَانَ يُصَلِّي نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَنَزَلَتْ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (سورة البقرة )”، فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَقَدْ صَلَّوْا رَكْعَةً، فَنَادَى أَلَا إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ حُوِّلَتْ، فَمَالُوا كَمَا هُمْ نَحْوَ الْقِبْلَةِ. [ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب: تحویل القبلۃ من القدس الی الکعبۃ]

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، فجر کی نماز لوگ مسجدِ قبا میں پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے پکار کر کہا: لوگو ! آج رات رسول اللہﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ کو کعبے کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا آپ حضرات بھی اپنا رخ کعبے کی طرف کرلیجیے، اس وقت سب بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، لہٰذا اس بات کو سن کر سب کعبے کی طرف گھوم گئے۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ”. [بخاری، کتاب التفسیر، أخرجہ مسلم]

برا بن عازبؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ (جب ہجرت کرکے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ننھیال میں-جو انصار تھے-ان کے یہاں اترے اور آپ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی، مگر آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبے کی طرف ہوجائے ( چناں چہ ایسا ہی ہوا) اور سب سے پہلی نماز جو آپ نے (کعبے کی طرف) پڑھی، عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ لوگ نماز میں تھے ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد کے لوگوں پر اس کا گزر ہوا، اور وہ (بیت المقدس کی طرف) نماز پڑھ رہے تھے، تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکّے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی ہے، (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں کعبے کی طرف گھوم گئے اور جب آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے یہود اور جملہ اہلِ کتاب بہت خوش تھے، مگر جب آپ نے اپنا رُخ کعبے کی طرف پھیرلیا تو یہ ان کو ناگوار ہوا۔

زہیر (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحاق نے برا سے اس حدیث میں یہ نقل کیا کہ تحویلِ قبلہ سے پہلے اسی قدیم قبلے پر کچھ لوگ مرچکے تھے، ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کے متعلق کیا خیال کیا جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ؁اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمھارے ایمان کو ضایع کردے، درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔[سورۃ البقرۃ]عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، ‏‏‏‏‏‏”أَنّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ عَلَى أَجْدَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْوَالِهِ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّهُ صَلَّى قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّهُ صَلَّى أَوَّلَ صَلَاةٍ صَلَّاهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ صَلَّى مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ مَسْجِدٍ وَهُمْ رَاكِعُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قِبَلَ مَكَّةَ فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ الْيَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ كَانَ يُصَلِّي قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلُ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا وَلَّى وَجْهَهُ قِبَلَ الْبَيْتِ أَنْكَرُوا ذَلِكَ”. قَالَ قَالَ زُهَيْرٌ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ فِي حَدِيثِهِ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ رِجَالٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقُتِلُوا فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة (البقرة). [بخاری، کتاب الایمان، باب: صلاۃ من الایمان، أخرجہ مسلم، مختصراً باختلاف]

بیت المقدس فتح ہو کر رہےگا

حضرت عوف بن مالکؓسے روایت ہے کہ میں غزوۂ تبوک میں حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: یاد رکھو قیامت برپا ہونے سے پہلے چھے باتیں وجود میں آ کر رہیںگی: (۱) میری رحلت (۲)فتح بیت المقدس (۳)اچانک مرنا؛ یہ وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جس طرح بکریوں میں یکایک مرنے کی بیماری پھیل جاتی ہے (۴)سرمایہ داری کی کثرت یعنی اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں تب بھی وہ خوش نہ ہو (۵)فتنے کی بیماری جو عرب کے ہر گھر میں داخل ہوگی پھر (۶)صلح نامہ جو تم مسلمانوں اور بنو اصغر (یعنی رومیوں) کے درمیان مرتب ہوگا، پھر وہ اس صلح نامہ سے پھرجائیں گے اور تمھارے مقابلے کے لیے اَسّی جھنڈے لیے ہوئے آئیں گے اور ان کے ہر ایک پرچم کے نیچے بارہ ہزار آدمیوں کا غول ہوگا۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ مَوْتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا”. [بخاری، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب: ما یحذر من الغدر]

حضرت معاذ بن جبلؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیت المقدس کی آبادی مدینے کی ویرانی ہوگی، مدینے کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہوگا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہوگی، قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہوگا۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبلؓکی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا :یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمھارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَ أَوْ مَنْكِبِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا أَوْ كَمَا أَنَّكَ قَاعِدٌ يَعْنِي مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ”. [ابوداود، کتاب الملاحم، باب: فی امارات الملاحم]

[کالم نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here