(آخری قسط)
مفتی ندیم احمد انصاری
فلسطین میں جھنڈے نصب کیے جائیںگے
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکےگی یہاں تک کہ (فلسطین کے شہر) ایلیا میں یہ نصب کیے جائیں گے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لَا يَرُدُّهَا شَيْءٌ حَتَّى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ “، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. [ترمذی، کتاب الفتن]
دجال کے بالمقابل مسلمانوں کا ٹھکانہ
حضرت ابو زاہریہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنگوں کے زمانے میں مسلمانوں کا ٹھکانا دمشق، دجال کے مقابلے میں ان کا ٹھکانا بیت المقدس اور یاجوج ماجوج کے مقابلے میں ان کا ٹھکانا بیتِ طور ہے۔عَنْ أَبِی الزَّاھِرِیَّۃِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: مَعْقِلُ الْمُسْلِمِینَ مِنَ الْمَلاَحِمِ دِمَشْقُ، وَمَعْقِلُھُمْ مِنَ الدَّجَّالِ بَیْتُ الْمَقْدِسِ، وَمَعْقِلُھُمْ مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ بَیْتُ الطُّورِ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ]
دجّال فلسطین میں قتل ہوگا
حضرت عائشہؓسے روایت ہے، دجال اصبہان کے یہودیوں میں ظاہر ہوگا یہاں تک کہ مدینے کے پاس آئے گا اور اس کے اطراف میں پڑاؤ کرے گا، اس وقت مدینے کے سات (داخلی) دروازے ہوں گے، ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے، پھر مدینے کے برے لوگ اس کی طرف چلے جائیں گے یہاں تک کہ شام، فلسطین کے شہر لد کے دروازے پر پہنچ جائے گا، پھر حضرت عیسیٰؑ نازل ہوں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ حضرت عیسیٰؑ زمین میں چالیس سال رہیں گے، آپ کی حیثیت عادل بادشاہ اور منصف حاکم کی ہوگی۔إن يخرج الدجال وأنا حي كفيتكموه، وإن يخرج بعدي فإن ربكم عز وجل ليس بأعور، إنه يخرج في يهودية أصبهان حتى يأتي المدينة فينزل ناحيتها ولها يومئذ سبعة أبواب على كل نقب منها ملكان، فيخرج إليه شرار أهلها حتى يأتي الشام مدينة بفلسطين بباب لد، فينزل عيسى عليه السلام فيقتله، ويمكث عيسى في الأرض أربعين سنة إماما عدلا وحكما مقسطا. عن عائشة. [کنزالعمال]
فلسطین میں شہید ہونے والے
حضرت انسؓکہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! قیامت کے روز لوگ کہاں جمع ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب زمین شام میں، اور وہ فلسطین اور اسکندریہ کی بہترین زمین ہے، وہاں قتل ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ دوسری زمین میں سے نہیں اٹھائے گا، وہ اس میں قتل ہوئے اور اسی سے اٹھا کر جمع کیے جائیں گے اور وہیں سے جنت میں داخل ہوں گے۔ عن أنس قال: قلت للنبي ﷺ: يا رسول الله! أين الناس يوم القيامة؟ قال: “في خير أرض اللہ وأحبها إليه الشام وهي أرض فلسطين والإسكندرية من خير الأرضين، المقتولون فيها لا يبعثهم الله إلى غيرها، فيها قتلوا ومنها يبعثون ومنها يحشرون ومنها يدخلون الجنة.سنده ضعيف.[کنزالعمال]
بیت المقدس جانا یا تیل بھجوانا
حضرت نبی کریم ﷺ کی باندی حضرت میمونہؓفرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں بیت المقدس کے متعلق بتائیے، آپ نے فرمایا: وہ حشر کی اور زندہ ہو کر اٹھنے کی زمین ہے، وہاں جا کر نماز پڑھو کیوں کہ وہاں نماز باقی جگہوں کی ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا:اگر میں وہاں جانے کی استطاعت نہ پاؤں ؟ فرمایا: وہاں کے لیے تیل بھیج دو، جس نے روشنی کا انتظام کیا ، وہ بھی وہاں جانے والے کی طرح ہے۔ عَنْ مَيْمُونَةَ مَوْلَاةِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: “أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ، ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِي غَيْرِهِ”، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ، قَالَ: “فَتُهْدِي لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ”. [ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد بیت المقدس، ابوداود]
حضرت سلیمانؑ اور بیت المقدس
حضرت عبداللہ بن عمروؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت سلیمان بن داودؑبیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئےتو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں: ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں وہ آپ کے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے یہ کہ مجھے ایسی حکومت دیجیے کہ میرے بعد ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دو باتیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو عطا فرما دیں، مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی عطا کی گئی ہوگی۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: “لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ”، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: “أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ”. [ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد بیت المقدس، نسائی]
حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا:فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا چناں چہ ہم نےسلیمان کو فیصلے کی سمجھ دے دی، اور ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا۔[سورۃ الانبیاء]فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ چناں چہ ہم نے ہوا کو ان کے قابو میں کردیا جو ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے ہم وار ہو کر چلا کرتی تھی۔[سورہ ص] وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍاور شریر جنات بھی ان کے قابو میں دے دیے تھے، جن میں ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور شامل تھے۔[سورہ ص] تیسری بات کی صراحت قرآن میں وارد نہیں ہوئی، اس لیے حضرت نبی کریم ﷺ نےفرمایا:مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انھیں عطا کی گئی ہوگی ۔
حضورﷺ بیت المقدس میں
حضرت بریدہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(شبِ معراج) ہم جب بیت المقدس پہنچے تو جبرئیلؑ نے اپنی انگلی سے ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھا۔ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ جِبْرِيلُ: بِإِصْبَعِهِ فَخَرَقَ بِهِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ “، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. [ترمذی، کتاب: تفسیر القرآن، باب: و من سورۃ بنی اسرائیل]
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ بیت المقدس تشریف لے گئے، آپ کے سامنے دو پیالے پیش کیے گئے؛ ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ آپ ﷺ نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دودھ کا پیالہ لے لیا ۔حضرت جبرئیلؑ نے عرض کیا: الحمدللہ کہ اللہ نے آپ کو فطری راستہ یعنی اسلام بتایا، اگر آپ شراب کے پیالے کو لے لیتے تو آپ ﷺ کی امت گم راہ ہوجاتی۔ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: “أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ: “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ”. [بخاری، کتاب التفسیر ، أخرجہ مسلم، مطولاً و کلہ فی الاشربۃ]
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: معراج کے سلسلے میں جب قریش نے میری تکذیب کی تو میں حِجر میں کھڑا ہوگیا، پس اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کو منکشف فرما دیا تو میں قریش کو اس کی علامتیں بتانے لگا اور بیت المقدس میری نظروں کے سامنے تھا۔ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، يَقُولُ: “لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ”. [بخاری، کتاب: مناقب الأنصار، باب: حدیث الاسراء، أخرجہ مسلم]
بنی اسرائیل کی شیطانی
حضرت ابوہریرہؓروایت بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ تم بیت المقدس کے دروازے میں عاجزی کے ساتھ حِطَّۃٌ کہتے ہوئے داخل ہو تو ہم تمھارے گناہ معاف کردیں گے، مگر بنی اسرائیل نے اس حکم کو نہیں مانا اور زمین پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ کی جگہ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ یعنی اناج کا دانہ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ سورة البقرة آية 58 فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ”. [بخاری، کتاب التفسیر، باب: قولہ: وقولوا حطۃ، أخرجہ مسلم]