عورت کے زیورات پر زکوٰۃ سے متعلق بعض مسائل
زیور کی زکوۃ کون اور کس طرح ادا کرے
ز (الف): عورت کے زیور کا مالک شوہر ہے؟ ساس سسر یا خود عورت؟( ب) عورت کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہے؛ مگر اس کے پاس رقم نہیں ہے جو بطور زکوۃ نکال سکے، اگر اس کے زیور کا مالک شوہر ہے اور اس کے پاس بھی کھاپی کر کچھ نہیں بچتا ہے، ایسی صورت میں زیور بیچ کر زکوۃ دے یا پھر کیا کرے؟ زیور کا کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کرنے کے لیے عورت تیار نہیں ہے یاپھر قرض لے؟(ج) عورت کے پاس ساڑھے پانچ تولہ صرف چاندی ہے، گھر میں کھاپی کر کچھ بچتا نہیں ہے، شوہر کے پاس ۵،۶ ہزار روپئے بینک بیلنس ہے، گھر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی بیمار رہتا ہے، کب کیا ضرورت پڑجائے اس کے حساب سے ۵،۶ ہزار ہمیشہ یہ شوہر رکھتا ہے، اور موجودہ زمانہ میں ۵،۶ ہزار روپئے اس مہنگائی کے زمانہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتے جب کہ چاندی کے حساب سے ۵/ہزار کا مالک صاحب نصاب ہوجاتا ہے، سونے اور چاندی کے نصاب میں بڑی ناانصافی معلوم ہوتی ہے؟ ایسی صورت میں کس طرح زکوۃ ادا کرے؟( د) خالدکے دو لڑکے زید اور سعید دونوں کی بیویاں ہیں، دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں، زکوۃ کے لیے دونوں بیویوں کے زیورات اکٹھا کرکے نصاب مانا جائے گا یا نصاب کے لیے دونوں کا زیور الگ الگ حکم رکھتا ہے؟ بہت سے لوگ جن کی دو تین بہو ہیں، ہر ایک ایک کو الگ الگ زیور کا مالک بناتے ہیں، اس صورت میں کسی تنہا بیوی کا زیور نصاب کو نہیں پہنچتا، شرعاً کیسا ہے؟(ھ) جنید اور خالد دوبھائی ہیں، خالد کے تین لڑکے ہیں اور یہ تینوں نوکری کرتے ہیں، خالد اپنے تینوں لڑکوں کی عورتوں کا اور اپنی بیوی کا ملاکر نصاب لگاتے ہیں اور پھر زکوۃ ادا کرتے ہیں، جنید اپنی عورت کا زیور خالد اور ان کی اولاد کے ساتھ نہیں ملاتے، وہ کہتے ہیں کہ ہماری بیوی کے زیور نصاب تک نہیں پہنچتے، اس لیے نہ میں زکوۃ نکالوںگا اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر نصاب میں شامل ہوںگا، شرعاً کیسا ہے؟ جب کہ خالد اور جنید ایک ساتھ رہتے ہیں، کھانا پینا رہنا سہنا سب ایک ساتھ ہے۔(و)جنید اور خالد دونوں بھائی ہیں، خالد کے تین لڑکے ہیں، تینوں شادی شدہ ہیں، کوئی عورت صاحب نصاب ہے اور کوئی نہیں، تو زکوۃ خالد پر واجب ہوگی جو گھر کے مالک ہیں یا جس عورت کا زیور نصاب کو پہنچ رہا ہے اس کے نام ہوگی؟ اور اگر تینوں لڑکے اور تینوں عورتیں صاحب نصاب ہیں اور جنید بھی صاحب نصاب تو سب پر قربانی لازم ہوگی یا گھر کے مالک ہونے کی صورت میں صرف خالد پر یا خالد، جنید لڑکوں کے باپ اور چچا دونوں پر واجب ہوگی؟
ل(الف) عورت کے زیور کی مالکہ عورت ہی ہےالبتہ اگر وہ زیور اس کو چڑھاوے میں دیا گیا ہے تو اس میں عرف کا اعتبار ہوگا۔(ب)زیور جس کی بھی ملکیت میں ہو اس پر اس کی زکوۃ واجب ہے، اگر اس کے پاس زکوۃ کی ادائیگی کے لیے نقد رقم موجود نہیں تو خود زیور کا چالیسواں حصہ زکوۃ میں نکالے، بلکہ اصل حکم تو یہی ہے کہ جس مال میں زکوۃ واجب ہو اسی مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ کے طور پر دیا جائے، لیکن اگر کوئی آدمی اس مال کے چالیسویں حصے کے بجائے اتنی قیمت زکوۃ کے طور پر دے دے تو بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ زکوۃ ایک فریضہ ہے، اس کا ادا نہ کرنے والا فاسق ہے اور مستحقِ عذاب وعقاب، اگر قرض لے کر زکوۃ ادا کرے تب بھی ادا ہوجاتی ہے۔(ج)عورت کے پاس چاندی کا نصاب ہے، اس کی زکوۃ اس پر واجب ہے، مرد کے پاس نصاب کے بقدر روپئے ہیں، ان کی زکوۃ اس پر واجب ہے۔ شریعتِ مطہرہ کی مقرر فرمودہ مقدار ونصاب پر ناانصافی کا اطلاق ایک مومن کی شان نہیں، اس سے توبہ ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ایمان کی حفاظت فرمائے۔(د) زیور اگر بہوؤں کی ملک ہے اور ہر ایک بہو کا زیور الگ سے مقدارِ نصاب نہیں ہے تو کسی پر زکوۃ واجب نہیں ہے اور اگر وہ خسر کی ملکیت ہے اور دونوں ملاکر بقدرِ نصاب ہیں تو خسر پر زکوۃ واجب ہے۔(ہ) کھاناپینا ایک ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اشیا کی ملکیت میں شرکت ہے، اس کے باوجود بہت سی اشیا میں ہرایک کی مستقل ملکیت ہوتی ہے، زکوۃ میں ملکیت کا اعتبار ہوتا ہے جیسا کہ اوپر (د) میں بتلادیا گیا ہے۔(و)زکوۃ کی تفصیل اوپر آچکی ہے، جن جن حضرات کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود ہے اور وہ ضروریات وحوائج اصلیہ سے زائد ہے تو چاہے وہ سونا چاندی نہ ہو اور اس پر سال بھی نہ گزرا ہو ان سب پر قربانی واجب ہے، صرف گھر کے ذمہ دار پر نہیں۔
عورت کے پاس نقد موجود نہ ہوتو زکوۃ کیسے؟
زایک شوہر نے اپنی شادی کے وقت اپنی بیوی کو سونے کے زیورات ہدیہ میں دیے، وہ آدمی مالدار ہے یا اس کی آمدنی کم ہے، اب زکوۃ نکالنے کے وقت شوہر اپنی بیوی سےکہتا ہے کہ: میں نے تجھے ہدیہ دیا، توجانے تیرا کام جانے، اور اس عورت کے پاس پیسہ نہیں ہے اور نہ وہ کام کرتی ہے،کیا اس کو کام کرنا پڑےگا تاکہ وہ اپنی زکوۃ دے سکے؟
لجو زیورات عورت کو دیے گئے ہیں اگر وہ مقدار نصاب ہیںیا ان کے ساتھ نقد ملاکر نصاب پورا ہوجاتا ہے تو ان کی زکوۃ عورت پر واجب ہے۔عورت کے پاس نقد موجود نہ ہو تو خود ان زیورات میں سے چالیسواں حصہ زکوۃ کے طور پر نکالے، اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت نہیں۔
شوہر مقروض ہوتو بھی بیوی کے مملوک زیور پر زکوۃ
ز سید بشیر کے اوپر تقریباً دولاکھ روپیہ کا قرض ہے، جب کہ اُس کی بیوی کے پاس ساڑھے آٹھ تولہ سونے کے زیورات ہیں، زیورات کی مالک بیوی ہی ہے، تو کیا شوہر کے مقروض ہونے کی وجہ سے اِن زیورات پر زکوۃ آئے گی؟
لچوںکہ ساڑھے آٹھ تولہ سونے کے زیورات کی مالک بیوی ہے اور اُس پر کوئی قرضہ بھی نہیں ہے۔ اِس لیے اُس پر اِن زیورات کی زکوۃ فرض ہے، اگر اُس کے پاس زکوۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم موجود نہ ہوتو اس زیور کا چالیسواں حصہ نکال کر بطورِ زکوۃ غربا میں تقسیم کردے۔٭٭